حصہ 1: دوڑ کا آغاز – عبرانیوں 12 کی روشنی میں توجہ کی بلاہٹ
تعارف: مسیحی زندگی بطور ایک دوڑ
کتابِ مقدس میں مسیحی زندگی کو اکثر ایک دوڑ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یہ کوئی 100 میٹر کی تیز دوڑ نہیں، بلکہ ایک طویل میراتھن ہے جو صبر، برداشت اور استقامت کا تقاضا کرتی ہے۔ عبرانیوں کے نام خط کا مصنف، جو غالباً ایسے مسیحیوں سے مخاطب تھا جو اپنے ایمان کے سبب سے ایذا رسانی کا سامنا کر رہے تھے ، اسی استعارے کو استعمال کرتے ہوئے انہیں ہمت نہ ہارنے کی ترغیب دیتا ہے۔ وہ لکھتا ہے:
"پس جب کہ گواہوں کا اَیسا بڑا بادل ہمیں گھیرے ہُوئے ہے تو آؤ ہم بھی ہر ایک بوجھ اور اُس گُناہ کو جو ہمیں آسانی سے اُلجھا لیتا ہے دُور کر کے اُس دَوڑ میں صبر سے دَوڑیں جو ہمیں دَرپیش ہے” (عبرانیوں 12:1) ۔
یہاں "صبر” کے لیے استعمال ہونے والا یونانی لفظ hupomonē ہے، جس کا مطلب محض غیر فعال برداشت نہیں، بلکہ مشکلات اور مخالفت کے باوجود ثابت قدمی سے آگے بڑھتے رہنا ہے ۔ یہ ایک فعال اور مضبوط رویہ ہے جو ایماندار کو اپنی منزل کی طرف بڑھنے کی قوت دیتا ہے، چاہے راستہ کتنا ہی دشوار کیوں نہ ہو۔ مصنف ایمانداروں کو یاد دلا رہا ہے کہ وہ بے دل ہو کر ہمت نہ ہاریں، بلکہ اس روحانی دوڑ کو جاری رکھیں ۔
گواہوں کا بادل: حوصلہ افزائی کا آسمانی اسٹیڈیم
آیت کا آغاز "گواہوں کا اَیسا بڑا بادل” کے ذکر سے ہوتا ہے، جو ایک طاقتور تصویر پیش کرتا ہے۔ یہ "گواہ” کون ہیں؟ یہ عبرانیوں کے 11ویں باب میں مذکور ایمان کے وہ ہیروز ہیں جنہوں نے اپنی زندگیوں میں خدا پر غیر متزلزل ایمان کا مظاہرہ کیا، جیسے ہابل، نوح، ابرہام، سارہ، موسیٰ اور راحب ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہم سے پہلے اس ایمان کی دوڑ کو دوڑ چکے ہیں۔
تاہم، ان کی حیثیت محض تماشائیوں کی نہیں ہے جو ہمیں اسٹیڈیم سے دیکھ رہے ہیں۔ یونانی زبان میں "گواہ” کے لیے لفظ martus استعمال ہوا ہے، جس سے ہمارا لفظ "شہید” (martyr) نکلا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنی آنکھوں سے خدا کے کاموں کو دیکھا، بلکہ اپنی زندگیوں سے اس کی وفاداری کی گواہی دی۔ ان کی زندگیاں اس بات کا زندہ ثبوت ہیں کہ ایمان کے ذریعے خدا پر بھروسہ کرنا اور اس کے وعدوں کو تھامے رکھنا ممکن ہے۔ لہٰذا، یہ "گواہوں کا بادل” ہمیں اس لیے نہیں گھیرے ہوئے کہ وہ ہماری کارکردگی کا جائزہ لے رہے ہیں، بلکہ ان کی اجتماعی زندگی اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ ایمان کی یہ دوڑ کامیابی سے مکمل کی جا سکتی ہے ۔ یہ ہمیں کارکردگی کے دباؤ سے آزاد کر کے گہری حوصلہ افزائی فراہم کرتا ہے۔ ہم اس سفر میں تنہا نہیں ہیں؛ ہم ایک ایسی راہ پر چل رہے ہیں جسے ایمان کے بہادروں نے ہم سے پہلے کامیابی سے طے کیا ہے۔
بوجھ اور گناہ کو دور کرنا: دوڑ کی تیاری
ایک کھلاڑی دوڑ میں حصہ لینے سے پہلے ہر غیر ضروری وزن اتار دیتا ہے تاکہ وہ اپنی پوری رفتار سے دوڑ سکے۔ اسی طرح، عبرانیوں کا مصنف ہمیں ہدایت کرتا ہے کہ ہم "ہر ایک بوجھ اور اُس گُناہ کو جو ہمیں آسانی سے اُلجھا لیتا ہے دُور کر دیں” ۔ یہاں دو مختلف چیزوں کا ذکر ہے: "بوجھ” اور "گناہ”۔
"گناہ” وہ کام ہیں جو براہِ راست خدا کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور ہمیں اس سے جدا کرتے ہیں۔ لیکن "بوجھ” وہ چیزیں ہیں جو شاید بذاتِ خود گناہ نہ ہوں، لیکن وہ ہماری روحانی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ یہ دنیاوی فکریں، غلط ترجیحات، بری عادتیں، یا کوئی بھی ایسی چیز ہو سکتی ہے جو ہماری توجہ کو خدا سے ہٹا کر دنیا کی طرف مبذول کرائے۔ اس روحانی دوڑ میں کامیابی کے لیے، ہمیں خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہوگا اور اپنی زندگیوں سے ہر اس بوجھ اور گناہ کو دور کرنا ہوگا جو ہماری رفتار کو سست کرتا ہے اور ہماری توجہ کو منتشر کرتا ہے۔
حصہ 2: توجہ کا کامل نمونہ – خداوند یسوع مسیح
بانی اور کامل کرنے والا: ہماری توجہ کا مرکز
گواہوں کا بادل ہماری حوصلہ افزائی کے لیے ہے، لیکن ہماری توجہ کا مرکز وہ نہیں ہیں۔ عبرانیوں 12:2 واضح طور پر ہدایت کرتا ہے: "اور اِیمان کے بانی اور کامِل کرنے والے یِسُوع کو تکتے رہیں” ۔ یسوع ہی ہماری روحانی دوڑ کا نقطہ آغاز اور منزل ہیں۔
یونانی میں "بانی” کے لیے لفظ archēgos استعمال ہوا ہے، جس کا مطلب ہے "پیشرو، بانی، یا رہنما”۔ یسوع نے ہمارے لیے ایمان کی راہ کا آغاز کیا۔ "کامل کرنے والا” کے لیے لفظ teleiōtēs ہے، جس کا مطلب ہے "جو کسی چیز کو اس کی تکمیل یا انجام تک پہنچاتا ہے”۔ یسوع نے نہ صرف اس دوڑ کا آغاز کیا، بلکہ وہ خود اس دوڑ کو دوڑے اور اسے فتح کے ساتھ مکمل کیا۔ وہ صرف ہمارے کوچ نہیں، بلکہ وہ چیمپئن ہیں جنہوں نے ہمارے لیے راہ بنائی اور منزل تک پہنچ کر دکھایا ۔ ہماری نگاہیں اسی کامل نمونے پر جمی رہنی چاہئیں۔
آنے والی خوشی: یسوع کی تحریک کا راز
کلام بتاتا ہے کہ یسوع نے صلیب کا دکھ "اُس خُوشی کے لِئے جو اُس کی نظروں کے سامنے تھی” برداشت کیا ۔ یہ خوشی کیا تھی جس نے اسے ناقابلِ تصور اذیت برداشت کرنے کی طاقت دی؟ یہ محض مستقبل کا کوئی انعام نہیں تھا، بلکہ یہ اس کے مشن میں ہی پوشیدہ تھی۔ یہ خوشی تھی:
- باپ کی مرضی کو پورا کرنے کی خوشی: یسوع نے کہا، "میرا کھانا یہ ہے کہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی کے موافق عمل کروں اور اُس کا کام پورا کروں” (یوحنا 4:34)۔
- اپنے لوگوں کو نجات دینے کی خوشی: وہ بہت سے بیٹوں کو جلال میں لانے کے لیے دکھ اٹھا رہا تھا (عبرانیوں 2:10)۔
- باپ کے ساتھ اپنے جلال کی بحالی کی خوشی: وہ اس جلال کی طرف دیکھ رہا تھا جو دنیا کی پیدائش سے پہلے باپ کے ساتھ اس کا تھا (یوحنا 17:5)۔
اکثر ہم "خوشی” کو مستقبل میں ملنے والی کسی ٹرافی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لیکن یسوع کی زندگی ظاہر کرتی ہے کہ اس کی خوشی خود مشن کی تکمیل میں تھی۔ فرمانبرداری کا عمل ہی اس کے لیے خوشی کا باعث تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمانداروں کی خوشی بھی صرف آسمان میں ملنے والے اجر میں نہیں، بلکہ آج، اس لمحے، خدا کی مرضی پر چلنے میں بھی پائی جاتی ہے۔ یہ سمجھ ہماری توجہ کو مستقبل کے فرار سے ہٹا کر حال میں ایک بامقصد اور خوشگوار زندگی گزارنے کی طرف لاتی ہے۔
شرمندگی پر فتح اور تخت پر جلال
یسوع نے "شرمِندگی کی پرواہ نہ کر کے صلِیب کا دُکھ سہا” ۔ رومی سلطنت میں صلیب پر موت انتہائی ذلت آمیز اور شرمناک سزا سمجھی جاتی تھی، جو صرف بدترین مجرموں کو دی جاتی تھی۔ لیکن یسوع نے دنیاوی عزت و ذلت کے پیمانوں سے بالاتر ہو کر اپنے آسمانی مقصد پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ اس نے دنیا کی رائے کو اپنے مشن پر حاوی نہیں ہونے دیا۔
اس کی بے مثال ثابت قدمی کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ "خُدا کے تخت کی دہنی طرف جا بَیٹھا” ۔ یہ مقام حتمی اختیار، عزت اور فتح کی علامت ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ جب ہم دنیا کی رائے اور شرمندگی کے خوف کو نظرانداز کر کے مسیح کی پیروی کرتے ہیں، تو حتمی اور ابدی عزت ہمیں خدا کی طرف سے عطا کی جاتی ہے۔
حصہ 3: ایماندار کا مقصد – عالمِ بالا کی چیزوں کی تلاش
کلسیوں 3:1-2 کی تفسیر: ایک نئی سمت
پولس رسول کلسیوں کے ایمانداروں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ اپنی توجہ کی سمت کو تبدیل کریں۔ وہ لکھتا ہے: "پَس جب تُم مسِیح کے ساتھ جِلائے گئے تو عالمِ بالا کی چِیزوں کی تلاش میں رہو جہاں مسِیح مَوجُود ہے اور خُدا کی دہنی طرف بَیٹھا ہے۔ عالمِ بالا کی چِیزوں کے خیال میں رہو نہ کہ زمِین پر کی چِیزوں کے” (کلسیوں 3:1-2) ۔
"مسیح کے ساتھ جلائے جانا” ہماری نئی پیدایش اور بپتسمہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ مسیح میں ہماری پرانی گناہ آلود فطرت مر گئی ہے، اور ہم نے ایک نئی، روحانی زندگی پائی ہے۔ اس نئی زندگی کی وجہ سے ہماری شناخت اب زمینی نہیں رہی، بلکہ آسمانی ہو گئی ہے۔ "عالمِ بالا کی چیزیں” صرف ایک جغرافیائی مقام (آسمان) کی طرف اشارہ نہیں کرتیں، بلکہ یہ خدا کی بادشاہت کی حقیقتوں، اس کی اقدار، اس کی ترجیحات اور اس کی مرضی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ یہ وہ روحانی حقیقت ہے جہاں مسیح جلال میں حکومت کر رہا ہے۔
پرانی انسانیت کو اتارنا: توجہ کے دشمن
عالمِ بالا کی چیزوں پر توجہ مرکوز رکھنے کا عملی تقاضا یہ ہے کہ ہم ان زمینی خواہشات کو "مُردہ کریں” جو ہماری توجہ کو بھٹکاتی ہیں ۔ پولس رسول ان کی ایک واضح فہرست دیتا ہے: "حرام کاری، ناپاکی، شہوَت، بُری خواہِش اور لالچ کو جو بُت پرستی کے برابر ہے” (کلسیوں 3:5) ۔ یہ تمام چیزیں ہماری توجہ کو خدا سے ہٹا کر خود پر، اپنی خواہشات پر اور اس فانی دنیا پر مرکوز کر دیتی ہیں۔ یہ ہماری روحانی دوڑ میں سب سے بڑے "بوجھ” اور "الجھانے والے گناہ” ہیں۔
نئی انسانیت کو پہننا: توجہ کا عملی اظہار
صرف پرانی فطرت کو اتارنا کافی نہیں۔ ہمیں "نئی انسانیت کو پہننا” بھی ہے ۔ یہ نئی فطرت مسیح کے کردار کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کے لباس میں "دردمندی، مہربانی، فروتنی، حِلم، تحمُّل” اور ان سب کے اوپر "محبّت کو جو کمال کا پٹکا ہے” باندھنا شامل ہے (کلسیوں 3:12-14) ۔
یہاں ایک گہرا تعلق واضح ہوتا ہے۔ کلسیوں 3 کا ڈھانچہ ظاہر کرتا ہے کہ ہماری توجہ کا مرکز براہِ راست ہمارے کردار کو تشکیل دیتا ہے۔ جب ہم عالمِ بالا کی چیزوں پر، یعنی مسیح اور اس کی بادشاہت پر، اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں (آیت 1-2)، تو اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم پرانی، گناہ آلود فطرت کو اتار پھینکتے ہیں (آیت 5-9) اور نئی، مسیح کی مانند فطرت کو پہن لیتے ہیں (آیت 10-17)۔ جس چیز پر ہم دھیان لگاتے ہیں، ہم ویسے ہی بن جاتے ہیں۔ روحانی توجہ صرف ایک ذہنی مشق نہیں، بلکہ یہ مسیحی تقدیس (Sanctification) کا بنیادی طریقہ کار ہے۔ کردار کی تبدیلی کا آغاز ذہن کی تبدیلی سے ہوتا ہے۔
حصہ 4: ایمان کے ہیروز: توجہ کے عملی نمونے
کتابِ مقدس ہمیں ایسے لوگوں کی مثالوں سے بھرپور ملتی ہے جنہوں نے شدید مشکلات کے باوجود اپنی توجہ خدا پر مرکوز رکھی۔
پولس رسول: مقصد کے لیے وقف زندگی
پولس رسول کی زندگی مشکلات اور مصائب سے بھری ہوئی تھی۔ اس نے اپنی خدمت کے دوران ناقابلِ تصور تکالیف برداشت کیں: بار بار قید، کوڑوں کی مار، سنگساری، جہاز کی تباہی، بھوک اور پیاس کا سامنا، اور جھوٹے رسولوں کی طرف سے مسلسل مخالفت (2 کرنتھیوں 11:23-28) ۔ ان تمام مشکلات کے باوجود، اس کی توجہ کبھی اپنے مقصد سے نہیں ہٹی۔ اس نے لکھا: "مَیں نشان کی طرف دَوڑا جاتا ہُوں تاکہ اُس اِنعام کو حاصِل کرُوں جِس کے لِئے خُدا نے مُجھے مسِیح یِسُوعؔ میں اُوپر بُلایا ہے” (فلپیوں 3:14)۔ اس کا واحد مقصد مسیح کی خوشخبری کی منادی کرنا اور اس بلاوے کو پورا کرنا تھا جو اسے خدا کی طرف سے ملا تھا ۔ پولس نے اپنی کمزوریوں اور مشکلات کو رکاوٹ نہیں سمجھا، بلکہ انہیں مسیح کی قدرت کے ظاہر ہونے کا ایک موقع جانا ۔
دانی ایل نبی: دعا میں ثابت قدمی
دانی ایل نبی کو ایک ایسے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا جہاں خدا کی عبادت کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ بادشاہ دارا نے ایک حکم جاری کیا کہ تیس دن تک کوئی بھی شخص بادشاہ کے علاوہ کسی اور معبود یا انسان سے دعا نہیں کر سکتا، اور خلاف ورزی کرنے والے کو شیروں کی ماند میں ڈال دیا جائے گا (دانی ایل 6:7-9) ۔ دانی ایل کی توجہ بادشاہ کے حکم یا موت کی دھمکی پر نہیں تھی، بلکہ اپنے خدا کے ساتھ اپنے روزانہ کے رشتے پر تھی۔ کلام بتاتا ہے کہ اس نے "حسبِ معمُول گُھٹنے ٹیک کر خُدا کے حضُور دُعا اور اُس کی شُکرگُذاری” جاری رکھی (دانی ایل 6:10) ۔ اس کا توکل اور بھروسہ مکمل طور پر اپنے خدا پر تھا کہ وہ اسے ہر حال میں بچانے پر قادر ہے ۔ دانی ایل کی ثابت قدمی اس کی گہری روحانی عادات اور خدا پر غیر متزلزل توکل کا ثبوت ہے۔
جدول: توجہ کے نمونے
یہ جدول ان تینوں عظیم شخصیات کی مثالوں کا خلاصہ پیش کرتا ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ توجہ کا اصول مختلف حالات میں کیسے فتح کا باعث بنتا ہے۔
ایمان کا ہیرو (Hero of Faith) | توجہ کا مرکز (Object of Focus) | درپیش چیلنج (Challenge Faced) | کلیدی حوالہ (Key Scripture) |
خداوند یسوع | آنے والی خوشی اور باپ کی مرضی | صلیب کی شرمندگی اور گنہگاروں کی مخالفت | عبرانیوں 12:2 |
پولس رسول | خوشخبری کی منادی اور مسیح میں انعام | قید، کوڑے، سنگساری، بھوک، خطرات | فلپیوں 3:14، 2 کرنتھیوں 11:23-28 |
دانی ایل نبی | خدا کی روزانہ عبادت اور دعا | بادشاہ کا حکم اور شیروں کی ماند کا خطرہ | دانی ایل 6:10 |
Export to Sheets
حصہ 5: توجہ کی جنگ – روحانی رکاوٹوں پر قابو پانا
عالمِ بالا کی چیزوں پر توجہ مرکوز رکھنا آسان نہیں ہے۔ ہمیں ہر روز ایک روحانی جنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں کئی رکاوٹیں ہماری توجہ کو بھٹکانے کی کوشش کرتی ہیں۔
اندرونی کشمکش: گناہ اور جسمانی خواہشات
سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے اپنے اندر موجود ہے۔ گناہ کو ایک ایسی قوت کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو ہمیں "آسانی سے اُلجھا لیتی ہے” (عبرانیوں 12:1)۔ آزمائشیں ہماری توجہ کو خدا کی ابدی حقیقتوں سے ہٹا کر دنیا کی فوری اور عارضی تسکین کی طرف لے جاتی ہیں ۔ اس اندرونی جنگ پر فتح پانے کے لیے ہمیں روح القدس کی قوت، خدا کے کلام، مسلسل دعا اور ایمانداروں کی رفاقت کی ضرورت ہے ۔
بیرونی دباؤ: دنیا کی فکر اور دولت کا فریب
یسوع مسیح نے واضح طور پر خبردار کیا: "تُم خُدا اور دَولت دونوں کی خِدمت نہیں کر سکتے” (متی 6:24) ۔ دولت سے محبت، یعنی لالچ، کو بائبل میں ہر قسم کی برائی کی جڑ اور بت پرستی کے مترادف قرار دیا گیا ہے (1 تیمتھیس 6:10؛ افسیوں 5:5) ۔ جب ہماری زندگی کا محور دولت کا حصول بن جاتا ہے، تو ہماری توجہ خدا سے ہٹ جاتی ہے اور ہم روحانی طور پر بے پھل ہو جاتے ہیں، جیسا کہ یسوع نے بیج اور زمین کی تمثیل میں بیان کیا (متی 13:22) ۔
روحانی مخالفت: شیطان کی چالیں
ہماری جنگ صرف گوشت اور خون سے نہیں، بلکہ تاریکی کی روحانی طاقتوں سے بھی ہے۔ شیطان ایک حقیقی دشمن ہے جو جھوٹ، دھوکے اور آزمائشوں کے ذریعے ہماری توجہ کو خدا سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ خداوند یسوع نے بیابان میں شیطان کی آزمائشوں کا مقابلہ خدا کے کلام کی اتھارٹی سے کیا، ہر بار یہ کہہ کر: "لکھا ہے کہ…” (متی 4:1-11) ۔ اسی طرح، ہمیں بھی خدا کے فراہم کردہ روحانی ہتھیار باندھنے کی ضرورت ہے—جن میں سچائی، راستبازی، ایمان کی ڈھال، اور روح کی تلوار جو خدا کا کلام ہے، شامل ہیں—تاکہ ہم شیطان کے حملوں کا مقابلہ کر سکیں اور اپنی توجہ کو قائم رکھ سکیں (افسیوں 6:11-18)۔
حصہ 6: مرکوز زندگی کا پھل – کامل اطمینان کا وعدہ
جب ہم اپنی توجہ کو کامیابی سے عالمِ بالا کی چیزوں پر مرکوز رکھتے ہیں، تو خدا ہمیں ایک انمول تحفہ عطا کرتا ہے: کامل اطمینان۔
یسعیاہ 26:3 کا پیغام: "شالوم، شالوم”
یسعیاہ نبی نے خدا کی طرف سے یہ شاندار وعدہ قلمبند کیا: "جِس کا دِل قائِم ہے تُو اُسے کامل سلامتی میں سلامت رکھّے گا کیونکہ اُس کا توکُّل تُجھ پر ہے” (یسعیاہ 26:3، URD ترجمہ) ۔ اصل عبرانی متن میں "کامل سلامتی” کے لیے "شالوم، شالوم” کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ایک لفظ کو دہرانا اس کی شدت اور کاملیت پر زور دیتا ہے۔ یہ صرف پریشانی یا جنگ کی عدم موجودگی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک گہرا، مکمل اور ہمہ جہت سکون، خوشحالی اور روحانی تکمیل کا نام ہے جو صرف خدا کی حضوری میں ہی مل سکتا ہے ۔
قائم دل اور توکل: اطمینان کی کنجی
یہ کامل اطمینان ہر کسی کے لیے نہیں، بلکہ ان لوگوں کے لیے ہے جن کا "دل قائم ہے”۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کی سوچ، ارادہ اور توجہ مضبوطی سے خدا پر ٹکی ہوئی ہے ۔ اس کی بنیاد "توکل” یعنی خدا پر مکمل اور غیر متزلزل بھروسہ ہے۔ جب ہم اپنے حالات کا کنٹرول اپنے ہاتھوں سے نکال کر خدا کے قادر ہاتھوں میں دے دیتے ہیں اور اس کی قدرت، حکمت اور بھلائی پر ایمان رکھتے ہیں، تو وہ ہمیں اپنے آسمانی اطمینان سے بھر دیتا ہے ۔
یہاں ایک اہم نکتہ سمجھنا ضروری ہے۔ بہت سے لوگ اپنی زندگی میں "اطمینان” کو براہِ راست تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اکثر ناکام رہتے ہیں۔ یسعیاہ 26:3 کا پیغام یہ ہے کہ اطمینان خود ایک مقصد نہیں ہے جس کا پیچھا کیا جائے، بلکہ یہ ایک نتیجہ ہے جو صحیح توجہ کے باعث خود بخود حاصل ہوتا ہے۔ جب ہماری توجہ خدا پر مرکوز ہوتی ہے، تو اس کا اطمینان ہماری زندگیوں میں روح کے پھل کے طور پر ظاہر ہوتا ہے (گلتیوں 5:22)۔ لہٰذا، ہمیں اطمینان کے پیچھے نہیں، بلکہ خدا کے پیچھے بھاگنا چاہیے۔
حصہ 7: غیر متزلزل نگاہ کا حصول – توجہ کے عملی طریقے
عالمِ بالا کی چیزوں پر توجہ مرکوز رکھنا ایک روحانی نظم و ضبط ہے جسے عملی اقدامات کے ذریعے پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔
کلام میں جڑ پکڑنا
- مطالعہ اور غور و فکر: صرف بائبل پڑھنا کافی نہیں۔ زبور 1:2 کے مطابق، ہمیں خدا کے کلام پر "دن اور رات” دھیان کرنا چاہیے۔ یہ عمل ہمارے ذہن کی تجدید کرتا ہے اور ہماری سوچ کو دنیا کے مطابق نہیں بلکہ خدا کی مرضی کے مطابق ڈھالتا ہے (رومیوں 12:2) ۔
- کلام کو یاد کرنا: زبور نویس کہتا ہے، "مَیں نے تیرے کلام کو اپنے دِل میں رکھ لیا ہے تاکہ مَیں تیرے خلاف گناہ نہ کروں” (زبور 119:11) ۔ کلام کو یاد کرنا آزمائش کے وقت روحانی تلوار کا کام کرتا ہے۔
دعا کی طاقت
- باقاعدہ دعا: دانی ایل کی طرح، ہمیں بھی اپنی زندگی میں دعا کا ایک منظم وقت اور جگہ مقرر کرنی چاہیے ۔
- مسلسل دعا: ہمیں "ہر وقت روح میں دعا” کرتے رہنا چاہیے (افسیوں 6:18)۔ دعا خدا کے ساتھ ہمارے تعلق کو تازہ رکھتی ہے اور ہماری توجہ کو دن بھر اس پر مرکوز رکھنے میں مدد دیتی ہے۔
جسم کو قربان کرنا
- زندہ قربانی: رومیوں 12:1 ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنے بدنوں کو ایسی "زندہ قربانی” کے طور پر پیش کریں جو پاک اور خدا کو پسندیدہ ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنی جسمانی خواہشات کو خدا کی مرضی کے تابع کر دیں ۔
- روزہ: روزہ ایک طاقتور روحانی عمل ہے جو ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم اپنی جسمانی ضروریات پر روحانی حقیقتوں کو ترجیح دیں۔ یہ ہماری توجہ کو دنیا سے ہٹا کر خدا پر مرکوز کرنے میں مدد دیتا ہے ۔
ایمانداروں کی رفاقت (کلیسیا)
- حوصلہ افزائی اور جوابدہی: ہمیں ایک دوسرے کو "محبت اور نیک کام کرنے کی ترغیب” دینی چاہیے (عبرانیوں 10:24) اور ایک دوسرے کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار کرنا چاہیے (یعقوب 5:16)۔ کلیسیائی رفاقت ہمیں روحانی طور پر مضبوط کرتی ہے اور ہمیں اپنی دوڑ میں ثابت قدم رہنے میں مدد دیتی ہے ۔
پرسکون ماحول کی تشکیل
ذہنی یکسوئی کے لیے ایک پرسکون ماحول بنانا بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ شور و غل سے دور، دعا اور مطالعہ کے لیے ایک مخصوص جگہ اور وقت مقرر کرنا ہماری توجہ کو مرکوز کرنے میں مدد دے سکتا ہے ۔ ان تمام طریقوں کا حتمی مقصد خود کو بہتر بنانا نہیں، بلکہ خدا کے ساتھ اپنی رفاقت کو گہرا کرنا اور اپنی توجہ کو مکمل طور پر اس کی طرف موڑنا ہے ۔
حصہ 8: اختتامیہ – انعام پر نظریں جمائے دوڑنا
آج ہم نے دیکھا کہ بائبل مقدس ہمیں ایک واضح بلاہٹ دیتی ہے: اپنی توجہ عالمِ بالا کی چیزوں پر مرکوز رکھو۔ مسیحی زندگی ایک صبر آزما دوڑ ہے، اور اس دوڑ میں ہماری کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہماری نگاہیں کس پر جمی ہیں۔ ہمارے پاس حوصلہ افزائی کے لیے "گواہوں کا ایک بڑا بادل” ہے، لیکن ہمارا حتمی نمونہ اور توجہ کا مرکز خداوند یسوع مسیح ہے، جو ہمارے ایمان کا بانی اور کامل کرنے والا ہے۔
اس نے آنے والی خوشی کے لیے صلیب کی شرمندگی کو برداشت کیا اور آج وہ خدا کے دہنے ہاتھ جلال میں بیٹھا ہے۔ اس کی مثال ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم بھی دنیاوی فکروں، گناہوں کے بوجھ، اور لوگوں کی رائے سے بے پرواہ ہو کر اپنی روحانی دوڑ کو جاری رکھیں۔ جب ہم اپنی توجہ کو مسیح پر اور عالمِ بالا کی حقیقتوں پر مرکوز کرتے ہیں، تو نہ صرف ہمارا کردار تبدیل ہوتا ہے، بلکہ خدا ہمیں کامل اطمینان کا انعام بھی بخشتا ہے۔
آئیے، آج ہم یہ عہد کریں کہ ہم ہر اس بوجھ اور گناہ کو اتار پھینکیں گے جو ہمیں آسانی سے الجھا لیتا ہے۔ آئیے، ہم دعا، کلام، رفاقت اور نظم و ضبط کے ذریعے اپنی توجہ کو تیز کریں۔ اور سب سے بڑھ کر، آئیے ہم اپنی آنکھیں یسوع پر جمائے رکھیں، تاکہ ہم اپنی دوڑ صبر سے مکمل کریں اور اس ابدی انعام کو حاصل کریں جو خدا نے اپنے ان تمام فرزندوں کے لیے رکھا ہے جو آخر تک وفادار رہتے ہیں۔