بائبل کا پیغام: دینا اور مدد

حصہ اول: دینے کی الہیاتی بنیاد

باب 1: "دینا لینے سے مبارک ہے”: سخاوت کا آسمانی اصول

تعارف

مسیحی الہیات اور اخلاقیات کے مرکز میں ایک ایسا اصول موجود ہے جو انسانی فطرت کی خود غرضی کو چیلنج کرتا ہے اور ایک اعلیٰ روحانی حقیقت کی طرف دعوت دیتا ہے۔ یہ اصول خُداوند یسوع مسیح کے اپنے الفاظ میں سمویا ہوا ہے، جسے پولس رسول نے اِفِسُس کے بزرگوں کو اپنی الوداعی تقریر کے دوران یاد دلایا: "دینا لینے سے مُبارک ہے” (اعمال 20:35) ۔ یہ محض ایک کہاوت یا اخلاقی نصیحت نہیں، بلکہ یہ ایک گہرا الہیاتی بیان ہے جو خُدا کی بادشاہی کی قدروں، اُس کے کردار، اور اُس خوشی کا خلاصہ پیش کرتا ہے جو اُس نے اپنے لوگوں کے لیے رکھی ہے۔ یہ رپورٹ اِسی بنیادی اصول کو نقطہ آغاز بناتے ہوئے، دینے کی فضیلت، محنت کی عظمت، خُدا پر توکل کی ضرورت، اور دانشمندانہ مدد کے عملی طریقوں کا ایک جامع بائبلی جائزہ پیش کرے گی۔ اس باب کا مقصد "دینے” کے عمل کو محض ایک مالیاتی لین دین سے بلند کرکے ایک روحانی عبادت، خدائی فطرت کی عکاسی، اور حقیقی خوشی کے سرچشمے کے طور پر قائم کرنا ہے۔

آیت کا تفسیری تجزیہ

اعمال 20 باب کی 35 ویں آیت مسیحی صحیفوں میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ پولس رسول، جو اپنی خدمت کے اختتام پر افسس کی کلیسیا کے رہنماؤں سے نہایت جذباتی انداز میں خطاب کر رہے تھے، اپنی زندگی کو ایک نمونے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ وہ یاد دلاتے ہیں کہ اُنہوں نے کس طرح اپنے ہاتھوں سے محنت کرکے نہ صرف اپنی ضروریات پوری کیں بلکہ کمزوروں کی بھی مدد کی ۔ اِسی عملی مثال کے بعد وہ خُداوند یسوع کے اِن الفاظ کا حوالہ دیتے ہیں: "مغبوط هو العطاء أكثر من الأخذ” (دینا لینے سے مبارک ہے) ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یسوع کا یہ قول اناجیلِ اربعہ (متی، مرقس، لوقا، یوحنا) میں سے کسی میں بھی درج نہیں ہے۔ ناقدین اِسے ایک تضاد کے طور پر پیش کر سکتے ہیں، لیکن الہیاتی طور پر یہ ابتدائی کلیسیا کے ایک اہم پہلو کو روشن کرتا ہے: خُداوند یسوع کی تمام تعلیمات اور اقوال صرف لکھی ہوئی اناجیل تک محدود نہیں تھے ۔ یوحنا رسول خود گواہی دیتے ہیں کہ "اور بھی بہت سے کام ہیں جو یسوع نے کئے کہ اگر وہ جدا جدا لکھے جاتے تو میں سمجھتا ہوں کہ جو کتابیں لکھی جاتیں اُن کے لئے دُنیا میں گنجائش نہ ہوتی” (یوحنا 21:25)۔ پولس کا اِس قول کا حوالہ دینا اِس بات کا ثبوت ہے کہ رسولوں کے پاس مستند زبانی روایات کا ایک ذخیرہ موجود تھا جو اُنہوں نے براہِ راست خُداوند سے حاصل کیا تھا، اور وہ اِن تعلیمات کو کلیسیا تک پہنچانے کا اختیار رکھتے تھے ۔ یہ حقیقت اِس اصول کے وزن اور اختیار کو مزید بڑھا دیتی ہے۔

اِس آیت کا سیاق و سباق اِس کے معنی کو مزید گہرائی بخشتا ہے۔ پولس صرف ایک نظریاتی بات نہیں کر رہے؛ وہ اپنی زندگی کا عملی نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "اَیسا ہی محنت کرکے کمزوروں کو سنبھالنا چاہئے” ۔ یہاں ایک واضح ترتیب نظر آتی ہے: (1) محنت اور مشقت ایک اضافی وسیلہ پیدا کرتی ہے۔ (2) یہ وسیلہ کمزوروں کی مدد کرنے کے قابل بناتا ہے۔ (3) دینے کا یہ عمل اُس روحانی کیفیت کو جنم دیتا ہے جسے "مبارک” کہا گیا ہے۔ لہٰذا، یہ برکت محض امیروں کے لیے نہیں جو اپنی فاضل دولت میں سے دیتے ہیں، بلکہ یہ اُس محنتی شخص کے لیے ہے جو اپنی کمائی سے دوسروں کی مدد کرتا ہے۔

لفظ "مبارک” (یونانی میں ‘makarios’، عربی میں ‘مغبوط’) کا ترجمہ محض "خوش” یا "خوش قسمت” سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ ایک گہری، پائیدار روحانی خوشی اور اطمینان کی حالت کو ظاہر کرتا ہے جو خُدا کے ساتھ ہم آہنگی اور اُس کی مرضی پوری کرنے سے حاصل ہوتی ہے ۔ یہ وہ خوشی ہے جو لینے یا حاصل کرنے کی عارضی مسرت سے کہیں بلند ہے۔ یہ ایک ایسی باطنی شادمانی ہے جو دینے والے کے دل کو معمور کرتی ہے کیونکہ وہ خُدا کے کردار کی عکاسی کر رہا ہوتا ہے ۔

سخاوت بطور خدائی صفت

"دینا لینے سے مبارک ہے” کا اصول اِس لیے سچ ہے کیونکہ یہ کائنات کے خالق، خُدا، کی فطرت کی عکاسی کرتا ہے۔ بائبل مقدس خُدا کو ایک عظیم دینے والے کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اُس نے زندگی دی، فطرت کی نعمتیں دیں، اپنا کلام دیا، اپنا فضل دیا، اور سب سے بڑھ کر، اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا دے دیا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے، ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے (یوحنا 3:16)۔ جب انسان دیتا ہے، تو وہ خُدا کی اِس تخلیقی اور محبت بھری صفت میں شریک ہوتا ہے۔ یہ شراکت ہی اُس روحانی خوشی اور "مبارک” حالت کا سرچشمہ ہے ۔

اِس اصول کا گہرا تعلق اُس تعلیم سے ہے جسے "سنہری اصول” کہا جاتا ہے: "پس جوکچھ تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں وُہی تم بھی اُن کے ساتھ کرو کیونکہ تَورَیت اور نبیوں کی تعلیم یہی ہے” (متی 7:12) ۔ یسوع مسیح انسانی فطرت کی خود غرضی کو جانتے تھے اور اُنہوں نے اِسی فطرت کو ایک مثبت سمت دی۔ انسان فطری طور پر اپنے لیے عزت، محبت اور بھلائی چاہتا ہے۔ سنہری اصول اِس خواہش کو دوسروں کی طرف موڑ دیتا ہے: اگر تم عزت چاہتے ہو تو دوسروں کی عزت کرو؛ اگر تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ نرمی سے پیش آئیں، تو تم بھی اُن کے ساتھ نرمی برتو ۔ اسی طرح، اگر تم برکت پانا چاہتے ہو تو دوسروں کے لیے برکت کا باعث بنو۔ یہ اصول پرانے عہد نامے کی تعلیم "اپنے ہمسایہ سے اپنی مانِند مُحبّت کرنا” (احبار 19:18) کی عملی تشریح ہے ۔ دینا محبت کا سب سے ٹھوس اور عملی اظہار ہے۔

خوشی سے دینے والے کی برکت

پولس رسول اِس تصور کو اپنے دوسرے خط میں کرنتھیوں کی کلیسیا کے لیے مزید واضح کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: "جِس قدر ہر ایک نے اپنے دِل میں ٹھہرایا ہے اُسی قدر دے نہ دریغ کر کے اور نہ لاچاری سے کیونکہ خُدا خُوشی سے دینے والے کو عزِیز رکھتا ہے” (۲-کُرنتھِیوں 9:7) ۔ یہاں زور دینے والے کے دل کی نیت اور رویے پر ہے۔ خُدا کو وہ دینا پسند نہیں جو مجبوری، سماجی دباؤ یا دکھاوے کے تحت دیا جائے۔ بلکہ وہ اُس سخاوت کو پسند کرتا ہے جو ایک شادمان اور رضامند دل سے نکلتی ہے۔

اِس کے فوراً بعد پولس رسول بوائی اور کٹائی کا روحانی قانون بیان کرتے ہیں: "جو تھوڑا بوتا ہے وہ تھوڑا کاٹے گا اور جو بُہت بوتا ہے وہ بُہت کاٹے گا” (۲-کُرنتھِیوں 9:6) ۔ یہ کوئی کاروباری فارمولا نہیں ہے کہ جتنا دو گے، اُتنا ہی نقد واپس ملے گا۔ بلکہ یہ ایک روحانی اصول ہے کہ سخاوت ایک ایسا بیج ہے جو برکت کی فصل پیدا کرتا ہے۔ یہ برکت صرف مالیاتی نہیں ہوتی، بلکہ یہ فضل، اطمینان، اور ہر نیک کام کے لیے وسائل کی فراہمی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ پولس آگے وعدہ کرتے ہیں: "اور خُدا تُم پر ہر طرح کا فضل کثرت سے کر سکتا ہے تاکہ تُم کو ہمیشہ ہر چِیز کافی طَور پر مِلا کرے اور ہر نیک کام کے لِئے تُمہارے پاس بُہت کُچھ مَوجُود رہا کرے” (۲-کُرنتھِیوں 9:8) ۔

یہ اصول ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم اپنے مہربان خُدا سے زیادہ کبھی نہیں دے سکتے ۔ جب ہم خوشی سے دیتے ہیں، تو ہم خُدا کے فضل کے بہاؤ کے لیے ایک چینل بن جاتے ہیں۔ خُدا نہ صرف ہماری ضروریات پوری کرتا ہے بلکہ ہمیں اِس قابل بھی بناتا ہے کہ ہم اور زیادہ سخاوت کر سکیں۔ یہ ایک ایسا بابرکت چکر ہے جو دینے والے کو روحانی اور مادی طور پر مالا مال کرتا ہے اور خُدا کے جلال کا باعث بنتا ہے ۔

حصہ دوم: کام، انحصار اور خدا پر توکل

باب 2: محنت کی عظمت اور ہاتھ پھیلانے کی مذمت

تعارف

دینے کی الہیاتی بنیاد کو سمجھنے کے بعد، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دینے کے لیے وسائل کہاں سے آئیں گے؟ بائبل مقدس اِس سوال کا واضح جواب "محنت” کی صورت میں دیتی ہے۔ یہ باب ایک مضبوط بائبلی کام کی اخلاقیات کو قائم کرے گا، جو سخاوت کے الہیاتی تصور کا لازمی اور عملی حصہ ہے۔ یہ دلیل پیش کی جائے گی کہ دینے کی صلاحیت محنت کرنے کی ذمہ داری پر منحصر ہے، اور کاہلی نہ صرف غربت کا باعث ہے بلکہ یہ ایک روحانی بیماری بھی ہے جو انسان کو خُدا کے بنائے ہوئے مقصد سے دور لے جاتی ہے۔

کام: ایک الہیاتی فریضہ

جدید ثقافت میں اکثر کام کو ایک بوجھ یا ایک ناگزیر برائی سمجھا جاتا ہے، لیکن بائبل مقدس کام کو ایک اعلیٰ اور مقدس مقام دیتی ہے۔ کام کی ابتدا گناہ کے بعد نہیں، بلکہ تخلیق کے ساتھ ہی ہوئی۔ خُدا خود پہلا کارکن ہے، جس نے چھ دنوں میں کائنات کو تخلیق کیا اور اپنے کام کو دیکھ کر کہا کہ "بہت اچھا ہے” (پیدایش 1:31) ۔ یہ حقیقت کام کو ایک الہیاتی تقدس عطا کرتی ہے؛ جائز محنت خُدا کی اپنی تخلیقی سرگرمی کی عکاسی ہے۔

خُدا نے انسان کو اپنی صورت پر بنایا اور اُسے کام کا ایک خاص فریضہ سونپا۔ باغِ عدن میں گناہ کے داخل ہونے سے پہلے، آدم کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ "باغ کی باغبانی اور نگہبانی کرے” (پیدایش 2:15) ۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کام انسان کے بنیادی مقصد کا حصہ تھا۔ یہ کوئی سزا نہیں تھی، بلکہ خُدا کے ساتھ مل کر اُس کی تخلیق کی دیکھ بھال اور اُسے ترقی دینے کا ایک شرف تھا۔

گناہ کے باعث انسانی زوال نے کام کی نوعیت کو بدل دیا۔ زمین پر لعنت ہوئی اور کام میں "مشقت” اور "منہ کا پسینہ” شامل ہو گیا (پیدایش 3:17-19) ۔ اب کام میں تھکاوٹ، جدوجہد اور ناکامی کا عنصر بھی شامل ہو گیا ہے۔ تاہم، اِس کے باوجود کام نے اپنی بنیادی عظمت اور وقار نہیں کھویا۔ یہ آج بھی انسان کے لیے اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات پوری کرنے، معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے، اور اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے خُدا کو جلال دینے کا بنیادی ذریعہ ہے۔ جب کوئی شخص محنت کرتا ہے، تو وہ اپنے کردار، اپنی مہارتوں اور اپنی شخصیت کو ظاہر کرتا ہے، بالکل اُسی طرح جیسے خُدا کا کام اُس کی قدرت اور حکمت کو ظاہر کرتا ہے ۔

کاہلی اور مفت خوری کی بائبلی مذمت

جس طرح بائبل محنت کو عزت دیتی ہے، اُسی شدت سے وہ کاہلی اور سستی کی مذمت کرتی ہے۔ امثال کی کتاب کاہل شخص کے انجام کے بارے میں واضح انتباہات سے بھری پڑی ہے۔ "مِحنتی آدمی کا ہاتھ حُکمران ہو گا لیکن سُست آدمی باج گُذار بنے گا” (امثال 12:24) ۔ ایک اور جگہ لکھا ہے، "جو اپنے کام میں سُست ہے وہ غارت کرنے والے کا بھائی ہے” (امثال 18:9)۔ بائبل کے مطابق، سستی اور کاہلی صرف ایک بری عادت نہیں، بلکہ یہ غربت، انحصار اور بالآخر تباہی کا سیدھا راستہ ہے۔

نئے عہد نامے میں پولس رسول اِس معاملے پر مزید سخت اور واضح ہدایات دیتے ہیں۔ تھسلنیکے کی کلیسیا میں کچھ لوگ اِس غلط فہمی کا شکار تھے کہ چونکہ خُداوند یسوع جلد آنے والے ہیں، اِس لیے اُنہیں کام کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ بیکار پھرتے اور دوسروں پر بوجھ بن رہے تھے۔ پولس رسول نے اِس رویے کی سختی سے مذمت کی اور ایک ناقابلِ فراموش اصول قائم کیا: "اگر کوئی کام نہ کرنا چاہے تو کھانے بھی نہ پائے” (۲-تسلُنیکیوں 3:10) ۔

یہ حکم بے رحمی پر مبنی نہیں ہے، بلکہ یہ ذاتی ذمہ داری اور کمیونٹی کے اندر صحت مند تعلقات کو فروغ دینے کے لیے ہے۔ پولس کا مقصد اُن لوگوں کی حوصلہ شکنی کرنا تھا جو کام کرنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود جان بوجھ کر بیکار رہتے اور کلیسیا کی سخاوت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے تھے۔ اُس نے اُنہیں نصیحت کی کہ وہ "چُپ چاپ کام کر کے اپنی ہی روٹی کھائیں” (۲-تسلُنیکیوں 3:12) ۔ یہ اصول ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد ہے جہاں ہر فرد اپنی صلاحیت کے مطابق اپنا حصہ ڈالتا ہے اور دوسروں پر غیر ضروری بوجھ نہیں بنتا۔ اِس طرح، کام نہ کرنا صرف ایک معاشی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک روحانی اور معاشرتی مسئلہ بھی ہے جو کلیسیا کے اتحاد اور گواہی کو نقصان پہنچاتا ہے۔

ہاتھ پھیلانے کی عادت

اِن بائبلی اصولوں کی روشنی میں، (صحت مند اور قابل افراد کا) دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے اور بھیک مانگنے کی عادت کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف انسان کو خُدا کی طرف سے دیے گئے محنت کے فریضے سے غافل کرتا ہے، بلکہ یہ اُس کے وقار کو بھی مجروح کرتا ہے۔ جب ایک شخص محنت کرنے کی بجائے مانگنے کو اپنا معمول بنا لیتا ہے، تو وہ اپنی ذاتی ذمہ داری سے دستبردار ہو جاتا ہے اور اپنی زندگی کا کنٹرول دوسروں کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔

یہاں اُن لوگوں کی بات نہیں ہو رہی جو کسی حقیقی معذوری، بیماری یا آفت کی وجہ سے کام کرنے سے قاصر ہیں۔ بائبل ایسے لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور مدد کی بھرپور تاکید کرتی ہے۔ لیکن جو شخص کام کر سکتا ہے اور پھر بھی نہیں کرتا، اُس کا مانگنا کاہلی اور مفت خوری کے زمرے میں آتا ہے، جس کی بائبل مذمت کرتی ہے۔ ایک مسیحی معاشرے کا فرض ہے کہ وہ ضرورت مندوں کی مدد کرے، لیکن ساتھ ہی اُس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ کاہلی کی حوصلہ شکنی کرے اور لوگوں کو محنت کرکے خود انحصار بننے کی ترغیب دے۔

تمام جائز کام کو عبادت کی ایک شکل کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ جب کوئی شخص اپنے کام کو خُداوند کے لیے کرتا ہے، تو اُس کا رویہ بدل جاتا ہے۔ "جو کام کرو جی سے کرو۔ یہ جان کر کہ خُداوند کے لِئے کرتے ہو نہ کہ آدمِیوں کے لِئے” (کُلسِّیوں 3:23) ۔ اِس نقطہ نظر سے، کام صرف روزی کمانے کا ذریعہ نہیں رہتا، بلکہ یہ خُدا کی عبادت اور اُس کے جلال کا ایک موقع بن جاتا ہے۔ اِس الہیاتی فریم ورک میں، کاہلی صرف ایک معاشی ناکامی نہیں، بلکہ یہ خُدا کو اُس عزت اور خدمت سے محروم رکھنے کے مترادف ہے جس کا وہ حقدار ہے۔ یہ پوری بحث کو معیشت سے بلند کرکے حمد و ثنا کے دائرے میں لے آتا ہے۔

باب 3: "سارے دل سے خداوند پر توکل کر”: روزی روٹی کے لیے خدا پر انحصار

تعارف

پچھلے باب میں محنت کی عظمت پر زور دیا گیا، جو بظاہر اِس حکم سے متصادم نظر آ سکتا ہے کہ ہمیں اپنی ضروریات کے لیے خُدا پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ کیا ہمیں سخت محنت کرنی چاہیے یا خُدا پر توکل؟ بائبل مقدس کے مطابق، یہ دونوں متضاد نہیں بلکہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ یہ باب اِس ظاہری تضاد کو حل کرے گا اور یہ واضح کرے گا کہ حقیقی مسیحی زندگی محنت اور توکل کے ایک متوازن امتزاج کا نام ہے۔ ایک ایماندار محنت اِس لیے کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ خُدا اُس کی محنت کو برکت دے گا، اور وہ توکل اِس لیے کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اُس کی محنت خُدا کی برکت کے بغیر بے فائدہ ہے۔

توکل کا بنیادی حکم

بائبل میں توکل کا سب سے بنیادی اور جامع حکم امثال کی کتاب میں پایا جاتا ہے: "سارے دِل سے خُداوند پر توکُّل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔ اپنی سب راہوں میں اُس کو پہچان اور وہ تیری راہنُمائی کرے گا” (امثال 3:5-6) ۔ یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ ہماری حتمی بھروسے کی جگہ ہماری اپنی قابلیت، ہماری منصوبہ بندی یا ہماری محنت نہیں، بلکہ خود خُدا کی ذات ہونی چاہیے۔

یہ توکل کوئی غیر فعال رویہ نہیں ہے، کہ انسان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جائے اور معجزے کا انتظار کرے۔ بلکہ، یہ ایک فعال، روزمرہ کا بھروسہ ہے جو ہماری محنت کے دوران بھی جاری رہتا ہے۔ ہم اپنی پوری کوشش سے کام کرتے ہیں، لیکن نتائج کو خُدا کے ہاتھ میں چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم منصوبہ بندی کرتے ہیں، لیکن خُدا سے رہنمائی مانگتے ہیں کہ وہ ہمارے قدموں کو سیدھا کرے ۔ یہ سمجھنا کہ ہماری کامیابی کا انحصار بالآخر خُدا پر ہے، ہمیں تکبر سے بچاتا ہے اور ناکامی کی صورت میں مایوسی سے محفوظ رکھتا ہے۔

فکر سے آزادی

خُدا پر توکل کا ایک عملی نتیجہ فکر اور پریشانی سے آزادی ہے۔ خُداوند یسوع مسیح نے اپنے پہاڑی وعظ میں اِس موضوع پر تفصیل سے تعلیم دی۔ اُنہوں نے اپنے سننے والوں سے کہا: "اپنے واسطے آسمان پر خزانہ جمع کرو… کوئی آدمی دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتا… اِس لئے مَیں تُم سے کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے؟ اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے؟” (متی 6:19-25)۔

یسوع مسیح کا یہ حکم کہ "کل کے لِئے فِکر نہ کرو” (متی 6:34) ، انسانی فطرت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے، جو مستقبل کی ضروریات کے بارے میں پریشان رہنے کی عادی ہے۔ یسوع کی دلیل خُدا کی ثابت شدہ وفاداری پر مبنی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر خُدا آسمان کے پرندوں کو کھلاتا ہے اور میدان کی سوسن کو پوشاک پہناتا ہے، جو آج ہیں اور کل بھاڑ میں جھونکی جائیں گی، تو وہ اپنے بچوں کا، جو اُس کی نظر میں کہیں زیادہ قیمتی ہیں، کتنا زیادہ خیال رکھے گا ۔ یہ توکل اُس خوف کا تریاق ہے جو انسان کو ذخیرہ اندوزی، لالچ اور دوسروں پر غیر صحت مند انحصار کی طرف دھکیلتا ہے۔ جب ایک شخص کو یقین ہوتا ہے کہ اُس کا آسمانی باپ اُس کی ضروریات کو جانتا ہے اور انہیں پورا کرنے پر قادر ہے، تو وہ فکر سے آزاد ہو کر سخاوت اور خدمت کی زندگی گزار سکتا ہے۔

خدا کی حاکمیت اور انسانی محنت

ایک ایماندار کی زندگی میں خُدا کی حاکمیت اور انسانی ذمہ داری ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ ہم بیج بوتے اور پانی دیتے ہیں، لیکن فصل کو بڑھانے والا خُدا ہے (۱-کرنتھیوں 3:6-7)۔ بائبل کا یہ اصول ہماری روزی روٹی کے معاملے پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ ہم محنت کرتے ہیں، لیکن برکت خُدا کی طرف سے آتی ہے۔ "آدمی کا دِل اپنی راہ ٹھہراتا ہے پر خُداوند اُس کے قدموں کی راہنُمائی کرتا ہے” (امثال 16:9) ۔ اِسی طرح، زبور نویس کہتا ہے: "اگر خُداوند ہی گھر نہ بنائے تو بنانے والوں کی مِحنت عبث ہے۔ اگر خُداوند ہی شہر کی حِفاظت نہ کرے تو نِگہبان کا جاگنا عبث ہے” (زبور 127:1) ۔

یہ آیات ہمیں سکھاتی ہیں کہ ہماری محنت ایک ضروری ذریعہ ہے، لیکن ہماری روزی روٹی کا حتمی سبب خُدا کی برکت ہے۔ حقیقی دولت اور خوشحالی صرف خُدا کی طرف سے آتی ہے۔ "خُداوند ہی کی برکت دَولت بخشتی ہے اور وہ اُس کے ساتھ دُکھ نہیں مِلاتا” (امثال 10:22) ۔ یہ سمجھ ہمیں ایک صحت مند توازن قائم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ ہم کاہلی سے بچتے ہیں کیونکہ ہمیں محنت کرنے کا حکم ہے، اور ہم تکبر اور فکر سے بچتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ نتیجہ خُدا کے ہاتھ میں ہے۔

خُدا پر توکل محنت اور مستعدی کا محرک ہے، نہ کہ کاہلی کا بہانہ۔ ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ "خُدا پر بھروسہ” کرنے کا مطلب کام نہ کرنا ہے۔ بائبل اس کے برعکس تصویر پیش کرتی ہے۔ چونکہ ہمیں بھروسہ ہے کہ خُدا ہماری محنت کو برکت دے گا ، ہم ناکامی کے خوف اور پریشانی سے آزاد ہو کر پُرسکون اور پُراعتماد طریقے سے کام کر سکتے ہیں۔ خُدا پر توکل ہمیں ہمت دیتا ہے کہ ہم خطرات مول لیں، سخی بنیں، اور خوف کی بجائے اُس کے جلال کے لیے کام کریں۔ یہ ایک صحت مند کام کی اخلاقیات کی نفسیاتی اور روحانی بنیاد ہے۔

بائبل ہمیں خُدا پر انحصار بڑھانے اور انسانوں پر غیر صحت مند انحصار کم کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ خُدا پر توکل کرنا روحانی خود انحصاری اور مضبوطی پیدا کرتا ہے۔ اس کے برعکس، کام کرنے سے انکار کرنا اور دوسروں سے فراہمی کی توقع رکھنا ایک ایسی انحصاری پیدا کرتا ہے جو روحانی طور پر کمزور کرتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہم مکمل طور پر خُدا پر منحصر ہوں، جو بدلے میں ہمیں انسانی معاشرے کے ذمہ دار اور قابلِ اعتماد رکن بناتا ہے۔

حصہ سوم: دانشمندانہ مدد کے عملی اصول

باب 4: حقیقی اور نقلی مستحق میں امتیاز: دانشمندانہ فیاضی کا فن

تعارف

سخاوت کے الہیاتی اور اخلاقی پہلوؤں کو قائم کرنے کے بعد، اب ہم عملی میدان میں قدم رکھتے ہیں۔ یہ باب صارف کے چوتھے اور پانچویں نکات، یعنی حقیقی اور نقلی مستحق میں فرق کرنے اور حقیقی مستحق کی پہچان کرنے کے طریقوں پر توجہ مرکوز کرے گا۔ یہ ایک نازک لیکن انتہائی اہم موضوع ہے۔ بائبل جہاں ایک طرف ہمیں کھلے دل سے دینے کا حکم دیتی ہے، وہیں دوسری طرف ہمیں دانشمندی اور اچھی مختاری (stewardship) کی بھی تعلیم دیتی ہے۔ اس باب کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ سخاوت کے ساتھ ساتھ امتیاز اور سمجھداری کا استعمال نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے تاکہ ہماری مدد اُنہی لوگوں تک پہنچے جنہیں واقعی اس کی ضرورت ہے اور ہمارے وسائل بہترین طریقے سے استعمال ہوں۔

بائبل میں مستحقین کی شناخت

بائبل مقدس میں بار بار کچھ خاص گروہوں کا ذکر کیا گیا ہے جنہیں مدد کا جائز حقدار سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے حالات کی وجہ سے معاشرے میں سب سے زیادہ غیر محفوظ اور کمزور تھے۔ ان کی دیکھ بھال کو خدا نے اپنی شریعت اور اپنے نبیوں کی تعلیمات میں مرکزی حیثیت دی ہے۔

  • بیوائیں اور یتیم (Widows and Orphans): یہ گروہ بائبل میں سب سے زیادہ ذکر کیا گیا ہے۔ قدیم معاشروں میں، جہاں سماجی تحفظ کا کوئی نظام نہیں تھا، ایک عورت اپنے شوہر کے بغیر اور بچے اپنے باپ کے بغیر مکمل طور پر بے سہارا ہو جاتے تھے۔ اُن کی جائیداد پر قبضہ کر لیا جاتا اور اُن کا استحصال عام تھا۔ اِسی لیے خدا نے خود کو اُن کا محافظ اور وکیل قرار دیا: "خُدا اپنے مُقدّس مکان میں یتیِموں کا باپ اور بیواؤں کا دادرس ہے” (زبور 68:5) ۔ شریعت میں واضح حکم تھا: "تُم کِسی بیوہ یا یتِیم لڑکے کو دُکھ نہ دینا۔ اگر تُو اُن کو کِسی طرح سے دُکھ دے اور وہ مُجھ سے فریاد کریں تو مَیں ضرُور اُن کی فریاد سُنوں گا” (خروج 22:22-24) ۔ یعقوب رسول اِس تعلیم کو نئے عہد نامے میں اپنے عروج پر پہنچاتے ہوئے کہتے ہیں: "ہمارے خُدا اور باپ کے نزدِیک خالِص اور بے عَیب دِین داری یہ ہے کہ یتِیموں اور بیواؤں کی مُصِیبت کے وقت اُن کی خبر لیں” (یعقُوب 1:27) ۔
  • غریب اور محتاج (The Poor and Needy): یہ ایک وسیع تر زمرہ ہے جس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو کاہلی کی وجہ سے نہیں بلکہ بدقسمتی، بیماری یا دیگر ناگہانی آفات کی وجہ سے بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ بائبل ہمیں اُن کے ساتھ انصاف اور ہمدردی کا حکم دیتی ہے۔ "اپنا مُنہ کھول۔ راستی سے فَیصلہ کر اور مِسکِینوں اور مُحتاجوں کا اِنصاف کر” (امثال 31:9) ۔ غریبوں کی مدد کرنا خدا کو قرض دینے کے مترادف سمجھا گیا ہے (امثال 19:17) ۔
  • پردیسی/مسافر (The Stranger/Sojourner): قدیم معاشروں میں پردیسی، تارکینِ وطن اور مسافر بھی ایک کمزور گروہ تھے کیونکہ اُن کا کوئی خاندانی یا قبائلی سہارا نہیں ہوتا تھا۔ خدا نے اپنی قوم کو حکم دیا کہ وہ پردیسیوں کے ساتھ محبت اور انصاف کا سلوک کریں، کیونکہ وہ خود بھی مصر میں پردیسی تھے (احبار 19:34)۔ زکریاہ نبی نے فرمایا: "بیوہ اور یتِیم اور مُسافِر اور مِسکِین پر ظُلم نہ کرو” (زکریاہ 7:9-10) ۔

تفریق کا ایک بائبلی نمونہ: 1 تیمتھیس 5 میں بیواؤں کے اصول

بائبل ہمیں امتیاز کرنے کا ایک نہایت واضح اور عملی نمونہ پولس رسول کے پہلے خط میں تیمتھیس کے نام فراہم کرتی ہے۔ پولس افسس کی کلیسیا کو ہدایت دے رہے تھے کہ کن بیواؤں کی مالی مدد کلیسیا کی ذمہ داری ہے اور کن کی نہیں۔ یہ حصہ دانشمندانہ سخاوت کے اصولوں کو سمجھنے کے لیے ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

پولس نے کلیسیائی امداد کے لیے اہل بیواؤں کے لیے کچھ معیار مقرر کیے :

  1. وہ "حقیقت میں بیوہ” ہو: اس کا مطلب ہے کہ اُس کا کوئی خاندان، یعنی بچے یا پوتے پوتیاں نہ ہوں جو اُس کی دیکھ بھال کر سکیں۔ پولس واضح کرتے ہیں کہ پہلی ذمہ داری خاندان کی ہے: "پر اگر کوئی اپنوں اور خاص کر اپنے گھرانے کی خبرگیری نہ کرے تو ایمان کا منکر اور بے ایمان سے بدتر ہے” (۱-تیمتھیس 5:8) ۔ کلیسیا کی مدد ایک حفاظتی جال ہے، پہلا سہارا نہیں۔
  2. نیک نامی اور کردار: اُس کی نیک نامی کا چرچا ہو، اُس نے بچوں کی اچھی پرورش کی ہو، مسافر پروری کی ہو، اور مصیبت زدہ مقدسوں کی مدد کی ہو۔ یعنی، اُس نے اپنی استطاعت کے مطابق دوسروں کی خدمت کی ہو۔
  3. عمر: اُس کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہو، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب کام کاج کرنے کے قابل نہیں رہی اور اُس کے دوبارہ شادی کرنے کا امکان بھی کم ہے۔

اس کے برعکس، پولس ہدایت کرتے ہیں کہ جوان بیواؤں کو کلیسیا کی امدادی فہرست میں شامل نہ کیا جائے، بلکہ اُن کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ دوبارہ شادی کریں، گھر بسائیں اور بیکاری سے بچیں جو غیبت اور فضول باتوں کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ خود انحصاری کو کلیسیائی انحصار پر ترجیح دینے کی ایک واضح مثال ہے۔

یہ اصول فیصلہ سنانے یا کسی کی اخلاقی قدر کو جانچنے کے لیے نہیں ہیں، بلکہ یہ کلیسیا کے محدود وسائل کی دانشمندانہ مختاری (stewardship) کے لیے ہیں۔ وسائل کو اُن لوگوں پر مرکوز کرکے جنہیں واقعی کوئی اور سہارا میسر نہیں، کلیسیا اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ مدد وہاں پہنچے جہاں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یہ ایک عملی حکمت عملی ہے، نہ کہ فریسیانہ judgmentalism۔

نقلی مستحق کون ہے؟

مذکورہ بالا بائبلی اصولوں کی بنیاد پر، ہم "نقلی” یا غیر مستحق مدد کے امیدوار کی کچھ خصوصیات کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ یہ کسی اخلاقی ناکامی کی بنیاد پر نہیں، بلکہ ذمہ دارانہ امداد کے اصولوں پر پورا نہ اترنے کی بنیاد پر ہے:

  1. صحت مند لیکن کام چور: جیسا کہ باب 2 میں واضح کیا گیا، جو شخص کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن کرنا نہیں چاہتا، وہ کلیسیائی امداد کا حقدار نہیں (۲-تسلُنیکیوں 3:10)۔
  2. خاندانی سہارا رکھنے والا: جس شخص کے خاندان کے افراد (بچے، والدین، بہن بھائی) اُس کی مدد کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں، اُنہیں اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے (۱-تیمتھیس 5:8) ۔
  3. دھوکہ دہی کرنے والا: وہ شخص جو جان بوجھ کر اپنی غربت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے یا دوسروں کی سخاوت کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے۔ بائبل میں دانشمندی اور امتیاز پر زور دینا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہمیں ایسے رویوں سے محتاط رہنا چاہیے۔

بائبل کا فلاحی ماڈل ذمہ داری کی ایک واضح درجہ بندی کو ظاہر کرتا ہے: (1) فرد، (2) خاندان، (3) کلیسیا/کمیونٹی۔ مسائل کو سب سے نچلی اور فوری سطح پر حل کیا جانا چاہیے۔ کلیسیا صرف اس وقت مداخلت کرتی ہے جب فرد اور خاندان کی اکائیاں ناکام ہو جائیں ۔ یہ گہرا اصول مضبوط خاندانوں کو فروغ دیتا ہے اور کمیونٹی کو غیر ضروری بوجھ سے بچاتا ہے، اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ مدد ان لوگوں کے لیے دستیاب رہے جن کے پاس واقعی کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

جدول 1: مستحقین کی بائبلی اقسام اور امداد کے اصول

مستحق کی قسم (Category of Needy)کلیدی حوالہ جات (Key Scriptures)امداد کے اصول اور ذمہ داری (Principles of Aid & Responsibility)
بیوائیں (Widows)یعقوب 1:27, 1 تیمتھیس 5:3-16, خروج 22:22ذمہ داری: خاندان، پھر کلیسیا۔ اصول: حقیقی ضرورت (کوئی سہارا نہیں)، نیک نامی، عمر (کام کرنے سے قاصر)۔
یتیم (Orphans)یعقوب 1:27, زبور 82:3, یسعیاہ 1:17ذمہ داری: کلیسیا اور معاشرہ۔ اصول: تحفظ، انصاف کی فراہمی، اور بنیادی ضروریات کی دیکھ بھال۔
غریب/محتاج (The Poor/Needy)استثنا 15:10, امثال 19:17, لوقا 3:11ذمہ داری: انفرادی اور اجتماعی۔ اصول: سخاوت، قرض دینا، ظلم سے بچانا، باوقار کام کے مواقع فراہم کرنا (مثلاً خوشہ چینی)۔
پردیسی/مسافر (The Stranger/Sojourner)زکریاہ 7:10, احبار 19:34, استثنا 10:19ذمہ داری: معاشرہ اور افراد۔ اصول: مہمان نوازی، انصاف، اور استحصال سے تحفظ۔
مظلوم (The Oppressed)یسعیاہ 1:17, زبور 82:3ذمہ داری: معاشرہ اور رہنما۔ اصول: انصاف کی وکالت کرنا، ظلم کے جوئے کو توڑنا۔

باب 5: مدد مگر دانشمندی کے ساتھ: ذمہ دارانہ سخاوت کے اصول

تعارف

یہ جاننے کے بعد کہ سخاوت کیوں ضروری ہے اور کس کی مدد کی جانی چاہیے، اب ہم چھٹے نکتے کی طرف بڑھتے ہیں: مدد کیسے کی جائے؟ یہ باب ذمہ دارانہ سخاوت کے عملی اصولوں پر توجہ مرکوز کرے گا۔ یہ دلیل پیش کی جائے گی کہ محض اچھی نیت کافی نہیں ہے۔ مسیحی مدد کو دانشمندی، دعا، پاک نیت اور جوابدہی کے ساتھ انجام دیا جانا چاہیے تاکہ یہ نہ صرف فوری ضرورت کو پورا کرے بلکہ طویل مدتی بھلائی اور خدا کے جلال کا باعث بھی بنے۔

دانشمندی اور دعا

حقیقی مسیحی مدد کا سرچشمہ انسانی ہمدردی کے ساتھ ساتھ الہیٰ دانشمندی بھی ہے۔ یعقوب رسول ہمیں واضح طور پر ہدایت کرتے ہیں: "لیکن اگر تُم میں سے کِسی میں حِکمت کی کمی ہو تو خُدا سے مانگے جو بغَیر ملامت کِئے سب کو فیّاضی کے ساتھ دیتا ہے۔ اُس کو دی جائے گی” (یعقوب 1:5) ۔ کسی کی مدد کرنے سے پہلے، خاص طور پر پیچیدہ اور مشکل حالات میں، ایک ایماندار کو دعا کے ذریعے خدا سے رہنمائی طلب کرنی چاہیے ۔

دانشمندی کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی مدد کے ممکنہ نتائج پر غور کریں۔ کیا ہماری مدد کسی شخص کو اس کی تباہ کن عادات (مثلاً نشہ یا جوا) میں مزید دھکیل دے گی، یا یہ واقعی اسے ان سے نکلنے میں مدد دے گی؟ کیا ہمارا دیا ہوا پیسہ واقعی خوراک اور لباس پر خرچ ہوگا یا کسی اور مقصد کے لیے استعمال ہوگا؟ یہ سوالات پوچھنا بے اعتمادی نہیں بلکہ دانشمندانہ مختاری (stewardship) کی علامت ہے۔ دانشمندانہ مدد کا مقصد صرف فوری تکلیف کو کم کرنا نہیں، بلکہ فرد کی مجموعی روحانی اور جسمانی بہبود کو فروغ دینا ہے ۔ بعض اوقات، سب سے زیادہ محبت بھرا کام پیسہ دینے کی بجائے وقت دینا، مشورہ دینا، یا کسی کو بحالی کے پروگرام میں داخل کروانا ہو سکتا ہے۔

نیت کی پاکیزگی

خداوند یسوع مسیح نے اس بات پر بہت زور دیا کہ ہمارے نیک کاموں کے پیچھے ہماری نیت کیا ہے۔ پہاڑی وعظ میں، انہوں نے ریاکاروں کی سختی سے مذمت کی جو لوگوں کی واہ واہ حاصل کرنے کے لیے خیرات کرتے تھے: "پس جب تُو خَیرات کرے تو اپنے آگے نرسِنگا نہ بجوا جَیسا رِیاکار عِبادت خانوں اور کُوچوں میں کرتے ہیں تاکہ لوگ اُن کی بڑائی کریں۔ مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ وہ اپنا اجر پا چُکے” (متی 6:2) ۔

یسوع نے اس کے برعکس تعلیم دی کہ ہماری سخاوت پوشیدگی میں ہونی چاہیے: "بلکہ جب تُو خَیرات کرے تو جو تیرا دہنا ہاتھ کرتا ہے اُسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جاننے پائے۔ تاکہ تیری خَیرات پوشِیدہ رہے۔ اِس صُورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا” (متی 6:3-4)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری مدد کا مقصد خدا کو خوش کرنا اور اس کے جلال کو ظاہر کرنا ہونا چاہیے، نہ کہ اپنی نیکی کا ڈھنڈورا پیٹنا۔ جب ہماری نیت خالص محبت اور ہمدردی پر مبنی ہوتی ہے، جو خدا کی ہمارے لیے محبت کی عکاسی کرتی ہے ، تو ہماری چھوٹی سے چھوٹی قربانی بھی خدا کی نظر میں بڑی قدر رکھتی ہے۔

کلیسیائی ذمہ داری: ڈیکن کا ادارہ

ابتدائی کلیسیا ہمیں منظم اور جوابدہ خیرات کا ایک بہترین نمونہ فراہم کرتی ہے۔ اعمال کی کتاب کے چھٹے باب میں، یروشلم کی کلیسیا میں ایک مسئلہ پیدا ہوا جب یونانی بولنے والی بیواؤں نے شکایت کی کہ روزانہ کی خوراک کی تقسیم میں انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے، رسولوں نے صرف لوگوں کو زیادہ سخی ہونے کی تلقین نہیں کی، بلکہ انہوں نے ایک منظم ڈھانچہ قائم کیا ۔

انہوں نے کلیسیا سے "سات نیک نام آدمیوں کو جو رُوح اور حکمت سے بھرے ہوں” منتخب کرنے کو کہا تاکہ وہ اس خدمت کو سنبھال سکیں۔ ان افراد کو بعد میں "ڈیکن” (خادم) کے نام سے جانا گیا ۔ اس اقدام کے دو بڑے فائدے ہوئے: اول، اس نے بیواؤں کی عملی ضروریات کو منصفانہ اور مؤثر طریقے سے پورا کیا۔ دوم، اس نے رسولوں کو "دعا میں اور کلام کی خدمت میں مشغول رہنے” کا موقع فراہم کیا (اعمال 6:4)۔

یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ جیسے جیسے ایک کلیسیا بڑھتی ہے، اس کا خیراتی کام بھی انفرادی اور بے ترتیب اقدامات سے بڑھ کر منظم، منصفانہ اور پائیدار نظاموں کی شکل اختیار کر لینا چاہیے۔ ایک منظم نظام نہ صرف وسائل کے غلط استعمال کو روکتا ہے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بناتا ہے کہ مدد سب سے زیادہ ضرورت مندوں تک شفاف طریقے سے پہنچے۔ یہ کلیسیائی قیادت کی پختگی کی علامت ہے جب وہ سخاوت کے جذبے کو ایک مؤثر اور جوابدہ نظام کے ذریعے عملی جامہ پہناتی ہے۔ غیر دانشمندانہ مدد کے منفی اثرات ہو سکتے ہیں۔ کسی نشے کے عادی کو پیسہ دینا اس کی لت کو مالی مدد فراہم کر سکتا ہے۔ کسی صحت مند لیکن کاہل شخص کو مسلسل خیرات دینا اس کی کاہلی کو تقویت دے سکتا ہے۔ لہٰذا، دانشمندانہ مدد کے لیے ایک طویل مدتی نقطہ نظر کی ضرورت ہوتی ہے جو شخص کی فوری مادی درخواست سے آگے بڑھ کر اس کی مجموعی فلاح و بہبود اور روحانی صحت پر غور کرے۔

باب 6: "مچھلی پکڑنا سکھانا”: بااختیار بنانے کا بائبلی نمونہ

تعارف

یہ رپورٹ اپنے آخری اور ساتویں نکتے پر پہنچتی ہے، جو مسیحی سخاوت کے حتمی مقصد کو بیان کرتا ہے۔ یہ مشہور کہاوت کہ "کسی کو مچھلی دو تو تم اسے ایک دن کے لیے کھلاتے ہو؛ اسے مچھلی پکڑنا سکھا دو تو تم اسے زندگی بھر کے لیے کھلاتے ہو” بائبل کے ایک گہرے اصول کی عکاسی کرتی ہے۔ مسیحی خیرات کا مقصد لوگوں کو ہمیشہ کے لیے امداد پر منحصر رکھنا نہیں، بلکہ انہیں بااختیار بنانا، ان کی عزتِ نفس بحال کرنا، اور انہیں دوبارہ خود انحصاری کی زندگی کی طرف لانا ہے۔ یہ باب اس بااختیار بنانے والے ماڈل کی بائبلی بنیادوں کو تلاش کرے گا۔

محض خیرات سے بڑھ کر

بائبل کا فلاحی نظام صرف خیرات یا بھیک دینے پر مبنی نہیں ہے، بلکہ یہ وقار اور محنت کے اصولوں پر قائم ہے۔ اس کی بہترین مثال پرانے عہد نامے میں "خوشہ چینی کا قانون” (The Law of Gleaning) ہے۔ خدا نے بنی اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی فصل کاٹتے وقت اپنے کھیتوں کے کونے پوری طرح نہ کاٹیں اور جو بالیں گر جائیں، انہیں اٹھانے کے لیے واپس نہ جائیں (احبار 19:9-10؛ استثنا 24:19)۔ یہ بچا ہوا حصہ "غرِیب اور پردیسی” کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا ۔

یہ نظام نہایت دانشمندانہ تھا۔ یہ براہِ راست خیرات نہیں تھی۔ غریب شخص کو اپنا کھانا حاصل کرنے کے لیے خود کھیت میں جانا پڑتا تھا، جھک کر بالیں جمع کرنی پڑتی تھیں، یعنی اسے محنت کرنی پڑتی تھی۔ اس طرح، یہ نظام ایک ہی وقت میں دو مقاصد پورے کرتا تھا: یہ غریبوں کی بھوک مٹاتا تھا اور ساتھ ہی ان کی عزتِ نفس اور کام کی عادت کو بھی برقرار رکھتا تھا ۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ خدا کا طریقہ لوگوں کو بے بس بنانے کا نہیں، بلکہ انہیں ان کی اپنی کوششوں کے ذریعے اپنی ضروریات پوری کرنے کے قابل بنانے کا ہے۔ وقار اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ رزق۔ ایک خیرات پیٹ بھر سکتی ہے لیکن روح کو کچل سکتی ہے۔ بااختیار بنانے والا کام پیٹ بھی بھرتا ہے اور روح کو بھی پروان چڑھاتا ہے۔

خود انحصاری کی تعمیر

نیا عہد نامہ اسی اصول کو ذاتی ترقی اور ذمہ داری پر زور دے کر آگے بڑھاتا ہے۔ مسیحی خیرات کا مقصد لوگوں کو روحانی اور مادی طور پر خود انحصار بننے میں مدد دینا ہونا چاہیے۔ خود انحصاری کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے: "اپنے اور اپنے خاندان کے لیے زندگی کی روحانی اور مادی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت، عزم اور کوشش” ۔ یہ خود انحصاری خدا پر توکل کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ یہ مغرور انفرادیت پسندی نہیں، بلکہ ذمہ دارانہ مختاری ہے۔

خود انحصاری کی تعمیر کے لیے کئی عملی اقدامات کی ضرورت ہے:

  • تعلیم اور ہنر مندی (Education and Skills): پولس رسول تیمتھیس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ "اپنے آپ کو خدا کے سامنے مقبول ۔۔۔ کام کرنے والے کی طرح پیش کرنے کی کوشش کر” (۲-تیمتھیس 2:15) ۔ اس میں علم حاصل کرنا اور اپنی صلاحیتوں کو نکھارنا شامل ہے۔ تعلیم اور ہنر مندی غربت کے چکر کو توڑنے اور خود انحصاری کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں ۔
  • ذمہ داری (Responsibility): بائبل مسلسل ایمانداروں کو اپنے اور اپنے خاندان کے لیے ذمہ داری اٹھانے کی تاکید کرتی ہے ۔ دوسروں کی مدد کرنے کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ انہیں اپنی زندگی کی ذمہ داری قبول کرنے اور اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی ترغیب دی جائے۔
  • محنت (Hard Work): جیسا کہ پہلے ابواب میں بیان کیا گیا، محنت کا کوئی نعم البدل نہیں۔ لوگوں کو کام تلاش کرنے، اپنا کاروبار شروع کرنے، یا اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں مدد کرنا انہیں پیسے دینے سے کہیں زیادہ پائیدار مدد ہے۔

یسوع کا نمونہ: مچھیروں کو بااختیar بنانا

خداوند یسوع مسیح کی زندگی بھی بااختیار بنانے کی ایک عظیم مثال ہے۔ لوقا کی انجیل کے پانچویں باب میں مچھلیوں کے معجزانہ شکار کا واقعہ اس کی بہترین تمثیل ہے ۔ پطرس اور اس کے ساتھی ساری رات محنت کرنے کے بعد ایک بھی مچھلی نہیں پکڑ سکے تھے۔ وہ تھکے ہوئے اور مایوس تھے۔ یسوع نے آکر انہیں مچھلیوں کا ایک ڈھیر نہیں دے دیا۔ بلکہ، انہوں نے پطرس کو حکم دیا کہ وہ "گہرے میں لے چل اور تم شکار کے لئے اپنے جال ڈالو” (لوقا 5:4)۔ یسوع نے پطرس کی اپنی محنت، اس کے اپنے جال اور اس کی اپنی کشتی کو استعمال کیا اور اسے حیرت انگیز طور پر نتیجہ خیز بنا دیا۔

اس معجزے نے پطرس کو نہ صرف مادی طور پر مالا مال کیا، بلکہ اسے روحانی طور پر بھی بااختیار بنایا۔ اس نے پطرس کو اس کی اپنی ناکامی کے احساس سے نکال کر خدا کی قدرت پر ایمان کی ایک نئی سطح پر پہنچا دیا۔ اس کے فوراً بعد، یسوع نے اسے ایک اعلیٰ مقصد دیا: "مت ڈر۔ اِس کے بعد تُو آدمیوں کا شکار کرے گا” (لوقا 5:10)۔ یسوع نے پطرس کو بااختیار بنایا، اس کے کام کو ایک نیا مطلب دیا، اور اسے ایک ناکام مچھیرے سے دنیا کو بدلنے والے رسول میں تبدیل کر دیا۔

خاتمہ: دینے کے چکر کو مکمل کرنا

یہ رپورٹ اب اپنے ابتدائی نقطے پر واپس آتی ہے۔ مسیحی سخاوت کا حتمی اور نجات بخش مقصد یہ ہے کہ مدد وصول کرنے والے کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ بھی ایک دن دینے والا بن سکے۔ جب ہم کسی شخص کو غربت اور انحصار سے نکال کر خود انحصاری اور پیداواری صلاحیت کی طرف لانے میں مدد کرتے ہیں، تو ہم اسے نہ صرف مادی طور پر مستحکم کرتے ہیں، بلکہ ہم اسے اس قابل بھی بناتے ہیں کہ وہ خود بھی "دینے کی مبارک” حالت کا تجربہ کر سکے۔

یہ ایک ایسا بابرکت چکر ہے جو کمیونٹی میں سخاوت، وقار اور باہمی محبت کو فروغ دیتا ہے۔ ایک شخص جسے مدد ملی، وہ اب دوسروں کی مدد کرتا ہے، اور یوں خدا کی بادشاہی کی قدریں زمین پر پھیلتی ہیں۔ یہ محض کسی کے بجٹ کو متوازن کرنے کا عمل نہیں، بلکہ یہ ایک روح کی بحالی کا عمل ہے جو اب خوشی سے خدا کے نجات بخش کام میں شریک ہو سکتی ہے۔ اس طرح، "دینا لینے سے مبارک ہے” کا اصول صرف دینے والے کے لیے نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا ہدف بن جاتا ہے جس تک پہنچنے میں ہم وصول کرنے والے کی مدد کرتے ہیں۔