باپ ایک چھپا ہوا خزانہ

خُداوند یسوع مسیح کے پُر فضل اور مقدس نام میں، میں، پاسٹر پرویز مسیح، آپ تمام کو دلی سلام پیش کرتا ہوں اور تہہ دل سے خوش آمدید کہتا ہوں

ہم سب جانتے ہیں کہ جب کوئی انسان اس دنیا میں آتا ہے، تو وہ اپنی زندگی کے ابتدائی لمحوں میں بالکل بے بس ہوتا ہے۔ نہ وہ خود سے کچھ کر سکتا ہے، اور نہ ہی اپنی بنیادی ضروریات کا بندوبست کرنے کے قابل ہوتا ہے۔

مگر انسان کی یہ بےبسی اُس کی ضروریات کے پورا ہونے میں کبھی رکاوٹ نہیں بنتی، کیونکہ خُدا نے اُس کے لیے ایسے وسیلے پہلے ہی سے مہیا کر رکھے ہوتے ہیں، جو اس کی ہر کمی کو پورا کرتے ہیں۔

اُس کی بہترین دیکھ بھال ہو رہی ہوتی ہے، اور اُس کی ہر چھوٹی بڑی ضرورت پوری کی جا رہی ہوتی ہے۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ کون لوگ ہیں، جو اتنی محبت، خلوص اور خوشی کے ساتھ اُس کے لیے سب کچھ کر رہے ہوتے ہیں، بغیر کسی شکایت کے؟”

یہ محبت، خلوص، قربانی اور ذمہ داری کے پیکر دو خوبصورت رشتے — ‘ماں’ اور ‘باپ’ — ہی ہوتے ہیں، جو اپنی اولاد کے لیے سب کچھ نچھاور کر دیتے ہیں۔

والدین کا کردار صرف زندگی کے ابتدائی لمحوں تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ جب تک وہ زندہ ہوتے ہیں، وہ اپنی اولاد کے لیے ایک سائبان کی مانند ہر لمحہ، ہر مشکل، اور ہر آزمائش میں ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔

اگرچہ ماں اور باپ دونوں ہی بے حد اہم، قیمتی اور ناقابلِ بدل رشتے ہیں، لیکن چونکہ یہ پیغام خاص طور پر فادر ڈے کے حوالے سے ہے، اس لیے آج میں صرف باپ کے کردار اور اُس کی بےلوث محبت پر کچھ بات کرنا چاہوں گا

اگر ہم باپ کے کردار کا مکمل احاطہ کرنے کی کوشش کریں، تو وقت بھی کم پڑ جائے، اور شاید پھر بھی کچھ پہلو تشنہ رہ جائیں۔ لیکن چونکہ یہ پیغام مختصر ہے، اس لیے میں صرف چند اہم باتوں کا ہی ذکر کر سکوں گا، جن سے ہم باپ کی عظمت کو تھوڑا سا جان سکیں

آئیے ہم خُدا کے کلام کی طرف رجوع کرتے ہیں — متی رسول کی معرفت لکھی گئی انجیل، اُس کا ساتواں باب، اور اُس کی ساتویں آیت سے آگے لکھا ہے:

‘مانگو تو تُم کو دِیا جائے گا۔ ڈُھونڈو تو پاؤ گے۔ دروازہ کھٹکھٹاؤ تو تُمہارے واسطے کھولا جائے گا۔ کیونکہ جو کوئی مانگتا ہے اُسے مِلتا ہے، اور جو ڈُھونڈتا ہے وہ پاتا ہے، اور جو کھٹکھٹاتا ہے اُس کے واسطے کھولا جائے گا۔’

(متی 7:7-8)

یہاں خُداوند یسوع مسیح ہمیں مانگنے، ڈھونڈنے اور کھٹکھٹانے کی تعلیم دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات ہمارے آسمانی باپ کے تعلق سے کہی گئی ہے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ خُداوند نے اِسے سمجھانے کے لیے ہمارے جسمانی باپ کی مثال استعمال کی — تاکہ ہم آسانی سے سمجھ سکیں کہ باپ کی فطرت کیسی ہوتی ہے۔

آگے لکھا ہے:

‘تُم میں اَیسا کَون سا آدمی ہے کہ اگر اُس کا بیٹا اُس سے روٹی مانگے تو وہ اُسے پتّھر دے؟ یا اگر مچھلی مانگے تو اُسے سانپ دے؟’

(متی 7:9-10)

جی ہاں! ایسا کوئی جسمانی باپ نہیں ہوگا جو اپنی اولاد کے لیے برا سوچے یا نقصان چاہے۔ بلکہ ایک باپ تو ہمیشہ یہی چاہتا ہے کہ اُس کی اولاد کی ضرورتیں پوری ہوں — نہ صرف ضرورت کے مطابق، بلکہ اگر ممکن ہو تو اُن کی خواہش کے مطابق بھی۔ وہ اپنی استطاعت سے بڑھ کر بھی کوشش کرتا ہے کہ اپنے بچوں کو وہ سب کچھ دے سکے جو اُن کے چہروں پر خوشی لا سکے۔

آگے کلامِ مقدس میں لکھا ہے:

‘پس جب کہ تُم بُرے ہو کر اپنے بچّوں کو اچّھی چِیزیں دینا جانتے ہو…’

(متی 7:11)

یہ ایک نہایت دلچسپ اور گہری بات ہے۔ انسان خود چاہے کتنا بھی کمزور، گناہگار، یا دنیا کے لحاظ سے غلطیوں سے بھرا ہوا کیوں نہ ہو — اُس کا رویہ دوسروں کے ساتھ جیسا بھی ہو — لیکن جب بات اپنی اولاد کی آتی ہے، تو اُس کا دل نرم پڑ جاتا ہے۔

وہ اپنی اولاد کے لیے ہمیشہ بھلا ہی سوچتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے بچے وہ سب کچھ پائیں جو اُس نے شاید خود کبھی نہ پایا ہو۔ وہ اُن کے لیے بہتر سے بہتر مہیا کرنے کی کوشش کرتا ہے — خواہ اُس کے وسائل محدود ہوں، مگر اُس کی محبت کی کوئی حد نہیں ہوتی۔

باپ وہ ہستی ہے جو اپنی ذات پر سختی برداشت کرتا ہے، صرف اس لیے کہ اُس کے بچوں پر کوئی تنگی نہ آئے۔ وہ اپنی خواہشوں کا گلا گھونٹ دیتا ہے، اپنی ضروریات کو پسِ پشت ڈال دیتا ہے — تاکہ اپنے بچوں کی چھوٹی سے چھوٹی خواہش اور بڑی سے بڑی ضرورت کو پورا کر سکے۔

وہ خاموشی سے پسینہ بہاتا ہے، مشقت کرتا ہے، اور کبھی کبھی اپنا دل بھی مار لیتا ہے — صرف اس لیے کہ اُس کے بچوں کے چہروں پر خوشی دیکھ سکے۔

ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک باپ خود اچھی چیز کھانے سے گریز کر لیتا ہے — یہ کہہ کر کہ ‘مجھے تو یہ پسند ہی نہیں’ — تاکہ اُس کی اولاد مزے سے وہ چیز کھا سکے۔

وہ گرمی میں پسینے سے شرابور ہو کر بھی یہ کہہ دیتا ہے کہ ‘مجھے تو گرمی لگتی ہی نہیں’ — صرف اس لیے کہ اُس کے بچے پنکھے کی ٹھنڈی ہوا میں سکون سے سو سکیں۔

باپ اکثر اپنی خواہشوں اور آرام کو بڑی خاموشی سے قربان کر دیتا ہے، اور اُس کی زبان پر کبھی شکایت نہیں آتی — کیونکہ اُس کی خوشی، اُس کے بچوں کی راحت سے جُڑی ہوتی ہے۔

اور یہ سب کچھ — یہ ساری قربانیاں، یہ ساری محبت، یہ ساری محنت — وہ بغیر کسی صلے یا شُکریے کی توقع کے کرتا ہے۔ وہ سب کچھ بے لوث ہو کر کرتا ہے… نہ کسی داد کا طلبگار ہوتا ہے، نہ کسی انعام کا۔

بس اُسے یہ سکون کافی ہوتا ہے کہ اُس کے بچے خوش اور مطمئن ہیں۔ یہی اُس کی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی اور خوشی ہوتی ہے۔

"آگے کلام میں لکھا ہے:

‘تو تُمہارا باپ، جو آسمان پر ہے، اپنے مانگنے والوں کو اچّھی چیزیں کیوں نہ دے گا؟’

(متی 7:11)

خُداوند یسوع مسیح یہاں ایک بار پھر ہماری توجہ آسمانی باپ کی طرف لے جاتے ہیں — جو کامل ہے، پاک ہے، اور بھلائی سے بھرپور ہے۔

اگر ایک ناکامل، فانی اور کمزور انسان — ایک جسمانی باپ — اپنی اولاد کے لیے بھلا سوچ سکتا ہے، قربانیاں دے سکتا ہے، تو ہمارا آسمانی باپ — جو اُس جسمانی باپ کی فطرت کا خالق ہے — بھلا ہمیں کیسے خالی جانے دے گا؟

وہ تو وہی خُدا ہے جس نے خود باپ کے دل میں محبت، قربانی اور شفقت رکھی۔ وہ اپنے بچوں کو کیوں نہ اچھی چیزیں دے گا، اگر وہ ایمان سے اُس سے مانگیں؟

اُس کا وعدہ ہے کہ وہ سنتا ہے، دیتا ہے، اور کبھی ترک نہیں کرتا. یعقوب کے خط کے پہلے باب کی 17 آیت میں لکھا ہے

ہر اچّھی بخشِش اور ہر کامِل اِنعام اُوپر سے ہے اور نُوروں کے باپ کی طرف سے مِلتا ہے جِس میں نہ کوئی تبدِیلی ہو سکتی ہے اور نہ گردِش کے سبب سے اُس پر سایہ پڑتا ہے۔

اب ہم ذرا آگے بڑھتے ہوئے باپ کے کردار کے ایک اور نہایت اہم پہلو پر غور کرتے ہیں — اور وہ ہے: باپ کی سختی۔

جی ہاں! باپ صرف وہ ہستی نہیں جو ہمیں روٹی، کپڑا، رہائش اور سکون مہیا کرتا ہے — بلکہ وہ ہماری شخصیت کی تعمیر کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔

جہاں وہ شفقت اور قربانی سے ہمیں زندگی دیتا ہے، وہیں وہ ہماری بھلائی اور ترقی کے لیے بسا اوقات سختی بھی کرتا ہے۔

یہ سختی دراصل اُس کی بے پناہ محبت اور تربیت کا حصہ ہوتی ہے — کیونکہ ایک باپ صرف نرمی سے ہی نہیں، بلکہ اصولوں اور نظم و ضبط سے بھی اپنے بچوں کو سنوارنا چاہتا ہے۔

وہ چاہتا ہے کہ اُس کے بچے نہ صرف آرام دہ زندگی گزاریں، بلکہ ایک مضبوط، دیانتدار، باوقار اور کردار کے پکے انسان بنیں۔

اس لیے اُس کی ڈانٹ، اُس کی روک ٹوک، اُس کی ناراضگی… دراصل تربیت گاہ کے ستون ہوتے ہیں — جن پر ہماری مضبوط شخصیت کھڑی ہوتی ہے۔

آئیے ہم کلامِ خدا کی روشنی میں اس پہلو کو اور بھی گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

عبرانیوں کے نام پولوس رسول کا خط، باب 12، آیت 4 سے آگے لکھا ہے:

‘اور تُم اُس نصِیحت کو بُھول گئے جو تُمہیں فرزندوں کی طرح کی جاتی ہے کہ اَے میرے بیٹے! خُداوند کی تنبِیہ کو ناچِیز نہ جان، اور جب وہ تُجھے ملامت کرے تو بے دِل نہ ہو۔ کیونکہ جِس سے خُداوند مُحبّت رکھتا ہے، اُسے تنبِیہ بھی کرتا ہے اور جِس کو بیٹا بنا لیتا ہے اُس کے کوڑے بھی لگاتا ہے۔’

(عبرانیوں 12:5-6)

یہ کلام نہ صرف آسمانی باپ کی تربیت کو ظاہر کرتا ہے، بلکہ ایک زمینی باپ کی تربیت کو بھی واضح کرتا ہے۔

باپ جب سختی کرتا ہے، روک ٹوک کرتا ہے، ملامت کرتا ہے، تو اکثر اولاد اُسے ناپسند کرتی ہے۔ مگر کلام کہتا ہے کہ یہ سب کچھ محبت کی نشانی ہے، نہ کہ نفرت کی۔

خُدا جس سے محبت کرتا ہے، اُسے تنبیہ بھی کرتا ہے — تاکہ وہ راہِ راست پر چلے، تاکہ وہ مضبوط، پاکیزہ اور کارآمد بنے۔

اسی طرح ایک زمینی باپ بھی سختی اسی لیے کرتا ہے تاکہ اُس کی اولاد کمزور نہ بنے، بلکہ اصولوں والی، ذمہ دار اور باکردار شخصیت میں ڈھلے۔

آگے کلام میں لکھا ہے:

‘تُم جو کچھ دُکھ سہتے ہو، وہ تُمہاری تربیت کے لیے ہے۔ خُدا فرزند جان کر تُمہارے ساتھ سلوک کرتا ہے۔ وہ کون سا بیٹا ہے جسے باپ تنبیہ نہیں کرتا؟

اور اگر تُمہیں وہ تنبیہ نہ کی گئی جس میں سب شریک ہیں، تو تُم حرام زادے ٹھہرے نہ کہ بیٹے۔’

(عبرانیوں 12:7-8)

یہ بڑی ہی کڑی مگر سچی بات ہے۔ اگر ایک باپ اپنے بچوں کی اصلاح نہیں کرتا، اُنہیں صحیح اور غلط کا فرق نہیں سکھاتا، اُنہیں ان کی غلطیوں پر روکتا نہیں — تو وہ سچا باپ نہیں کہلا سکتا۔

کیونکہ تربیت کے بغیر تعلق صرف محبت کا دعویٰ رہ جاتا ہے، حقیقت نہیں۔

خُدا ہمیں واضح طور پر بتاتا ہے کہ دُکھ، روک ٹوک، اور تنبیہ… یہ سب ہماری تربیت کے لیے ہوتے ہیں — تاکہ ہم مضبوط، باشعور اور فرمانبردار بیٹے اور بیٹیاں بنیں۔

اور اگر یہ تنبیہ ہماری زندگی میں نہیں ہے، تو یہ خطرے کی گھنٹی ہے — کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ ہم اب تک اس تعلق میں داخل ہی نہیں ہوئے جس میں باپ اپنے بیٹے سے سچا سلوک کرتا ہے۔

یہاں ایک نہایت اہم اور قابلِ غور نکتہ ہے — اور وہ ہے: باپ کی تربیت کو سہنا۔

اکثر لوگ باپ کی طرف سے کی گئی تربیت، نصیحت، اور سختی کو برداشت نہیں کرتے۔ وہ اسے اپنی آزادی پر حملہ سمجھتے ہیں، یا اسے ذاتی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔

نتیجتاً، وہ نہ صرف اپنے باپ سے دُور ہو جاتے ہیں، بلکہ اُس تربیت سے بھی محروم ہو جاتے ہیں جو اُنہیں بہتر انسان بنا سکتی تھی۔

ایسے لوگ وقت کے ساتھ دل میں شکایت، تلخی اور منفی سوچ پال لیتے ہیں۔ وہ باپ کی محبت کو سمجھنے کے بجائے اُس کی سختی کو غلط معنی دیتے ہیں — اور اس طرح اپنی زندگی میں ترقی اور حکمت کے اُس خزانے سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جو باپ اپنے تجربے اور محبت سے اُنہیں دینا چاہتا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ اگر ہم باپ کی تربیت کو دل سے سہہ لیں، اُس پر غور کریں، تو وہ ہمیں گرا نہیں دیتی — بلکہ اُٹھاتی ہے، سنوارتی ہے، اور نکھارتی ہے.

امثال 15 باب کی 5 آیت میں بڑی حکمت سے لکھا ہے:

‘احمق اپنے باپ کی تربیت کو حقیر جانتا ہے، پر تنبیہ کا لحاظ رکھنے والا ہوشیار ہو جاتا ہے۔’

یہ کلام نہایت صاف اور دو ٹوک بات کرتا ہے — کہ ایک شخص جو باپ کی نصیحت اور تربیت کو حقیر جانتا ہے، وہ احمق کہلاتا ہے۔

یہ صرف نافرمانی نہیں، بلکہ ایک طرح کی روحانی جہالت بھی ہے — کیونکہ وہ اُس تجربے، محبت، اور حکمت کو رد کرتا ہے جو باپ نے سالوں کی مشقت اور دعا کے ساتھ حاصل کی ہوتی ہے۔

اس کے برعکس جو تنبیہ کا لحاظ رکھتا ہے، یعنی جو باپ کی نصیحت کو غور سے سنتا اور اس پر عمل کرتا ہے — وہ ہوشیار، یعنی عقلمند، سمجھدار اور کامیاب انسان بن جاتا ہے۔

یہ آیت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ باپ کی بات کو سننا، اُس کی سرزنش کو برداشت کرنا، اور اُس پر عمل کرنا صرف ادب یا اخلاقیات کا تقاضا نہیں — بلکہ یہ عقل، دانائی اور کامیابی کی راہ ہے۔

جس نے یہ راستہ اپنا لیا، اُس نے گویا زندگی کی بنیاد مضبوط چٹان پر رکھ دی۔

"اب ہم ایک اور نہایت اہم پہلو کی طرف بڑھتے ہیں — جو ماں اور باپ دونوں کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان بوڑھا ہو جاتا ہے۔ وہ ماں جو بچپن میں ہماری ایک ایک حرکت پر نظر رکھتی تھی، اب خود سہارا مانگتی ہے۔

وہ باپ جو ہمارے لیے دن رات مشقت کرتا تھا، اب خود تھکنے لگا ہے۔ نہ وہ پہلے جیسا زور رہا، نہ وہ پہلے جیسی پھرتی۔

اب ایک نئی ذمہ داری اولاد پر آ جاتی ہے — اب وہ وقت آ گیا ہے جب ماں باپ کو فائدہ پہنچانے کا وقت ہے۔

انگریزی میں ایک بہت بامعنی محاورہ ہے:

"Father becomes son and son becomes father.” (باپ بیٹے کی جگہ اور بیٹا باپ کی جگہ لے لیتا ہے)

یہی وہ وقت ہوتا ہے جب انسان کا اصل کردار سامنے آتا ہے — کیا وہ ان والدین کو جو کبھی اس کے لیے سب کچھ تھے، اب بوجھ سمجھتا ہے؟ یا اُنہیں عزت، وقت، اور خدمت دے کر اُن کی قربانیوں کا بدلہ لوٹانے کی کوشش کرتا ہے؟

متی 15 باب کی 5 آیت میں ہم پڑھتے ہیں کہ خداوند یسوع مسیح نے فریسیوں اور فقیہوں کی ریاکاری کو بے نقاب کرتے ہوئے فرمایا:

‘مگر تم کہتے ہو کہ جو کوئی باپ یا ماں سے کہے کہ جس چیز کا تجھے مجھ سے فائدہ پہنچ سکتا تھا، وہ خدا کی نذر ہو چکی…’

یہ دراصل ایک بہانہ تھا — کہ اولاد والدین کی خدمت سے جان چھڑا لے۔ خداوند یسوع نے ایسی سوچ کی شدید مذمت کی — کیونکہ یہ نہ صرف خدا کے حکم کی خلاف ورزی تھی، بلکہ والدین کی عزت اور خدمت جیسے مقدس فریضے کو ترک کرنے کا جواز بھی۔

یاد رکھیں:

جس طرح ماں باپ نے بغیر کسی غرض کے ہمیں پالا، ویسے ہی اب ہمیں بغیر کسی بہانے، بغیر کسی تنگ دلی کے اُن کی خدمت کرنی ہے۔

"بظاہر یہ بڑی مقدس اور جچی تلی دلیل لگتی ہے کہ خدا کے نام پر، نذر و نیاز کے بہانے، ماں یا باپ کی خدمت سے جان چھڑائی جائےاور دین کو ڈھال بنا کر اُن رشتوں سے آنکھ چرائی جائے جنہوں نے ہمیں جنم دیا، پالا، بڑھایا لیکن یاد رکھیں: خدا کا کلام کسی بھی ایسی دینداری کو قبول نہیں کرتا جو ماں باپ کی عزت اور خدمت کو پسِ پشت ڈال دے۔

خداوند یسوع نے فریسیوں کو اسی ریاکاری پر ملامت کی تھی — کیونکہ وہ ظاہری طور پر خدا کے نام پر نذر کرتے تھے، لیکن حقیقت میں اپنے ماں باپ کا حق مار رہے تھے۔

یہ یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ:  خدا نے نہ صرف ماں باپ کو انسانی زندگی میں بلند مقام دیا ہے، بلکہ اُن کی عزت کو اپنے احکام میں شامل کیا ہے — وہ بھی پہلے حکموں میں سے، اور وعدے کے ساتھ! ماں اور باپ کا درجہ محض جذباتی نہیں، بلکہ روحانی، اخلاقی اور الٰہی ہے۔اُن کی خدمت ایک احساس یا رسم نہیں — بلکہ خدا کا حکم ہے، اور اس حکم کی پاسداری زندگی میں برکت کا دروازہ کھولتی ہے۔

ماں اور باپ کی خدمت اور عزت کے ساتھ خدا کے قیمتی اور اٹل وعدے جُڑے ہوئے ہیں۔

یہ محض اخلاقی نصیحت نہیں بلکہ ایک ایسا الٰہی حکم ہے جس کے ساتھ خدا نے برکت، لمبی عمر، اور کامیاب زندگی کی ضمانت دی ہے۔

خروج 20:12 میں لکھا ہے:

‘اپنے باپ اور اپنی ماں کی عزت کر تاکہ تیری عمر اس زمین پر دراز ہو جسے خداوند تیرا خدا تجھے دیتا ہے۔’

یہ حکم ہمیں بتاتا ہے کہ ماں باپ کی عزت نہ صرف ایک روحانی فریضہ ہے بلکہ یہ دنیاوی زندگی کی درازی اور کامیابی کا راز بھی ہے۔

افسیوں 6:2-3 میں پولوس رسول لکھتا ہے:

‘اپنے باپ اور ماں کی عزت کر (یہ پہلا حکم ہے جو وعدہ کے ساتھ ہے)، تاکہ تُو خوش رہے اور زمین پر عمر دراز کرے۔’

یعنی اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری زندگی میں خوشی، سکون اور برکت ہو — تو ماں باپ کی عزت تمہاری ترجیح ہونی چاہیے۔

یہی وہ روحانی اصول ہے جسے نہ تو وقت بدل سکتا ہے، نہ دنیا کا کوئی قانون۔

یاد رکھیں:

باپ اور ماں کے چہرے پر مسکراہٹ، آپ کے حق میں آسمان پر دعا کا دروازہ کھولتی ہے اور اُن کے دُکھی دل سے نکلی ہوی آہ… ساری عبادتوں کو روک سکتی ہے۔

"اب ہم اُس خاص برکت کی طرف بڑھتے ہیں، جو صرف اُس وقت کھلتی ہے جب باپ کے دل سے دُعا نکلتی ہے — نہ رسمی، نہ زبانی — بلکہ ایک گہری، جذبات سے لبریز، خدا سے جُڑی ہوئی دعا۔

یہ وہ دعا ہے جو اولاد کے حق میں باپ کے دل سے نکلتی ہے اور آسمان کے دروازے کھول دیتی ہے۔

پیدائش 27 باب میں ہم دیکھتے ہیں کہ اضحاق ضعیف ہو گیا — اُس کی بینائی جاتی رہی — اور وہ اپنی موت کے دن کے قریب تھا۔

یہ وہ لمحہ ہے جس کا ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں: کہ ایک وقت آتا ہے جب باپ بوڑھا ہو جاتا ہے، کمزور ہو جاتا ہے — اب وہ دینے کے قابل کم بلکہ محتاج سا دیکھائی دیتا ہے۔ مگر دیکھیے! اُس لمحے میں بھی برکت کا دروازہ اُسی کے ہاتھ میں ہے۔

وہ عیسو سے کہتا ہے: سو اب تُو ذرا اپنا ہتھیار اپنا ترکش اور اپنی کمان لے کر جنگل کو نِکل جا اور میرے لِئے شِکار مار لا۔ اور میری حسبِ پسند لذِیذ کھانا میرے لِئے تیّار کر کے میرے آگے لے آ تاکہ مَیں کھاؤں اور اپنے مَرنے سے پہلے دِل سے تُجھے دُعا دُوں۔

یہاں چھپا خزانہ یہی ہے: جب اولاد باپ کی خواہشات کا احترام کرے — اُس وقت بھی جب وہ کمزور، ضعیف اور محتاج ہو —

تو باپ کا دل نرم ہوتا ہے، اور وہاں سے نکلتی ہے ایک ایسی دعا جس کی خُدا کے حضور بے حد قدر ہے۔

یہ دعا برکتوں کی وہ کنجی ہے جو نہ کسی چرچ، نہ کسی واعظ، نہ کسی رسم، نہ کسی خدمت سے حاصل ہو سکتی بلکہ صرف ایک "راضی، مطمئن، خوش دل باپ” کی دعا سے۔

یاد رکھیں:باپ کی رضا، دعا بن کر آپ کی زندگی کے بند دروازے کھول سکتی ہے۔

اور باپ کا دل دکھا ہو… تو وہ دعا کے دروازے بند کر سکتا ہے — چاہے آپ کتنے ہی روزے رکھ لیں۔

یہی تو اس پیغام کا اصل عنوان ہے — "باپ: برکتوں کا چھپا ہوا خزانہ”

اور یہ خزانہ اس وقت کھلتا ہے جب ہم باپ کی کمزوری میں بھی اُس کا احترام کرتے ہیں —

بلکہ تب اور بھی زیادہ، جب وہ ضعیف، بےبس، یا خاموش ہوتا ہے۔

اب ایک اور نہایت اہم پہلو کی طرف آتے ہیں…

وہ ہے کسی مرد کی زندگی میں اُس کی بیوی کا کردار — خاص طور پر برکت کے دروازے کے حوالے سے۔

بعض عورتیں اس حقیقت سے ناواقف ہوتی ہیں

کہ ان کے شوہر کی ترقی، کامیابی، ذہنی سکون، اور گھر کی برکت — اکثر اُن کے سُسرال، یعنی شوہر کے ماں باپ کے ساتھ رویے سے جُڑی ہوتی ہے۔

ایسی بیویاں، بعض اوقات نادانستہ طور پر،

شوہر کو اپنے والدین سے دور کرتی ہیں —

سوچ یہ ہوتی ہے کہ "کیا ہم نوکر ہیں؟ ہر وقت اُن کی خدمت کیوں کریں؟”

بات خدمت کی نہیں، بات سوچ کی ہے۔

اگر دل میں خدمت کو بوجھ سمجھا جائے،

تو وہ نیکی بھی برکت کا ذریعہ نہیں بنتی۔

مگر اگر دل میں عزت اور محبت ہو،

تو چھوٹی سی بات بھی آسمان کو چُھو لیتی ہے۔

ایک دانا بیوی وہ ہوتی ہے جو جانتی ہے

کہ اگر شوہر کے ماں باپ خوش ہیں،

تو آسمان کا خدا بھی خوش ہے —

اور شوہر کی زندگی میں جو دعا وہ بوڑھے لبوں سے دیتے ہیں۔ وہ گھر کی بنیادوں کو ہلا دینے والی برکت بن جاتی ہے۔

امثال 14 باب کی 1 آیت میں لکھا ہے

دانا عَورت اپنا گھر بناتی ہے پر احمق اُسے اپنے ہی ہاتھوں سے برباد کرتی ہے۔

یاد رکھیں، گھر صرف اینٹوں سے نہیں بنتے —

بلکہ سوچ، دعا، اور رویے سے بنتے ہیں۔

اگر ایک بیوی اپنے شوہر کو اس کی جڑوں — یعنی والدین — سے کاٹ دے،

تو وہ خود اپنے پھل کو کاٹ رہی ہوتی ہے۔

اور اگر وہ اپنے شوہر کو ماں باپ کی عزت، خدمت، اور دعا کی طرف بڑھنے میں سہارا دے،

تو وہ صرف ایک دانا عورت ہی نہیں،

بلکہ اپنے شوہر کے مقدر کی معمار بن جاتی ہے۔

پیدائش 24 باب میں ہم ایک نہایت اہم واقعہ پڑھتے ہیں۔ جب ابرہام نے اپنے سال خردہ نوکر کو ایک اہم ذمے داری دے کر بھیجا کہ وہ اس کے بیٹے کے لئے بیوی لائے۔

لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس نے اس تلاش کی بنیاد ایک خاص اور اہم دعا پر رکھی۔

وہ خاص دعا کیا تھی آئیے پڑھتے ہیں

پیدائش 24 باب کی 12 آیت سے

اور کہا اَے خُداوند میرے آقا ابرہامؔ کے خُدا مَیں تیری مِنّت کرتا ہُوں کہ آج تُو میرا کام بنا دے اور میرے آقا ابرہامؔ پر کرم کر۔ دیکھ مَیں پانی کے چشمہ پر کھڑا ہُوں اور اِس شہر کے لوگوں کی بیٹِیاں پانی بھرنے کو آتی ہیں۔

 سو اَیسا ہو کہ جِس لڑکی سے مَیں کہُوں کہ تُو ذرا اپنا گھڑا جُھکا دے تو مَیں پانی پی لُوں اور وہ کہے کہ لے پی اور مَیں تیرے اُونٹوں کو بھی پلا دُوں گی تو وہ وُہی ہو جِسے تُو نے اپنے بندہ اِضحاقؔ کے لِئے ٹھہرایا ہے اور اِسی سے مَیں سمجھ لُوں گا کہ تُو نے میرے آقا پر کرم کِیا ہے۔

یہ کتنی زبردست دعا تھی!

اور اس سے بھی بڑھ کر،

اس دعا کا جواب — ربقہ کی شکل میں ملا —

جس نے نہ صرف خادم کو پانی پلایا،

بلکہ اونٹوں کو بھی بغیر کسی کہے، چستی کے ساتھ پلایا۔

آپ جانتے ہیں کہ اونٹ پیاسے ہوں تو ایک وقت میں درجنوں لیٹر پانی پی جاتے ہیں؟

یہ آسان کام نہ تھا!

لیکن ایک ایسی بیوی جو توقع سے بڑھ کر دے —

وہی ایک خاندان کے لئے برکت کا ذریعہ بنتی ہے۔

یہی خوبی آج بھی ایک بیوی میں ہونی چاہیے —

کہ وہ صرف اپنی ذمے داری نہیں نبھاتی، بلکہ اپنے شوہر کے خاندان کو برکت دلانے میں فعال کردار ادا کرتی ہے۔

 وہ کہے: "میں صرف بیوی نہیں… بلکہ برکت کا وسیلہ ہوں اور میں چاہتی ہوں کہ میرے شوہر کا مقدر خدا کی مرضی کے مطابق کھلے۔” ایسی بیوی صرف ربقہ ہی نہیں، ہر بہن بن سکتی ہے اور اپنے گھر میں برکتیں لا سکتی ہے۔

عزیز بھائیو اور بہنو، اس روحانی پیغام میں ہم نے باپ کے اُس کردار پر روشنی ڈالی جو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے —مگر حقیقت میں وہ ایک چھپا ہوا خزانہ ہے۔

ہم نے پانچ اہم پہلوؤں پر غور کیا:

پہلے نمبر پر باپ کی پرخلوص قربانیاں

وہ چھپ کر، خاموشی سے، اپنی ضروریات کو دبا کر… اپنی اولاد کے لیے سب کچھ کرتا ہے۔ نہ وہ واویلا کرتا ہے، نہ شکایت —

بس دن رات ایک کر کے صرف اس لیے جیتا ہے کہ اُس کے بچے سکون سے جی سکیں۔

دوسرے نمبربپر باپ کی تربیت اور سختی میں چھپی بھلائی اور محبت

کبھی کبھی ہمیں باپ کی سختی سمجھ نہیں آتی — مگر وہ سختی ایک ایسی تربیت ہے جو ہمیں مضبوط بناتی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم زندگی کے طوفانوں کا سامنا ہنستے ہوئے کر سکیں۔

تیسرے نمبر پر بوڑھے والدین کی عزت اور خدمت کا حکم

جب وہ بوڑھے ہو جائیں اور کمزور ہو جائیں، تو اُنہیں مت بھولیں — بلکہ اُن کی خدمت کریں اور ہر ضرورت کا خیال رکھیں ویسے ہی جیسے انہوں نے ہمارے لئے کیا۔

چوتھے نمبر پر باپ کی دلی دعا سے جُڑی برکت

جب ایک بیٹا باپ کی خواہش کو پہچانتا ہے اور اسے پورا کرتا ہے — تو باپ کے دل سے نکلی دعا وہ خزانہ ہے جس میں زندگی کی برکتیں پوشیدہ ہیں۔

پانچوں نمبر پر شوہر کے والدین کے احترام میں بیوی کا کردار

ایک عقلمند بیوی جانتی ہے کہ شوہر کی کامیابی، اُس کے والدین کے احترام سے جُڑی ہے۔ اگر وہ اس سوچ کے ساتھ خدمت کرے کہ "میں نوکر نہیں بلکہ برکت کا ذریعہ ہوں” تو وہ گھر جنت کا نمونہ بن جاتا ہے

میرے عزیز بھائیو اور بہنو،

شائد یہ پیغام آپ کے لئے خدا کی آواز ہے۔ 

شائد آج غلطیاں سدارنے کا دن ہے

بہت کچھ جو کھو دیا اسے واپس پانے کا دن ہے

دیر نہ کریں، قدم بڑھائیں اور چل پڑھیں واپسی کے راستے پر۔

یاد کریں وہ دن جب آپ نے پہلی بار بولنا سیکھا،

چلنا سیکھا، گر کر سنبھلنا سیکھا۔ 

ہر قدم پر آپ نے اپنے باپ کو آپ کی مدد کے لئے موجود پایا۔ 

آپ بیمار ہوئے تو وہ آپ کو لئے بھاگا پھرا۔

آج وہ بوڑھا ہو چکا ہے۔ آج وہ کمزور ہوچکا ہے۔ آج اسے آپ کے سہارے کی ضرورت۔ 

اب وقت ہے ایک بڑا قدم اٹھانے کا۔ 

یہ کہنے کا کہ "اے باپ، میں واپس آ رہا ہوں… میں بدلنے کو تیار ہوں”؟

اور اے بہن…

آج وقت ہے اپنی سوچ پر غور کرنے کا۔ یہ سوچنے کا کہ کہیں میں اپنے شوہر کی برکتوں کے دروازے پر پہرہ تو نہیں دے رہی؟

آج بدلنے کا دن ہے۔ 

آج لوٹنے کا دن ہے۔ 

آج برکتوں کے دروازے کو کھولنے کا دن ہے

آج یہ دعا کرنے کا دن ہے کہ

"اے خُدا، مجھے وہ بیوی بنا جو برکت لانے والی ہو — نہ کہ رکاوٹ ڈالنے والی۔ مجھے وہ دل دے جو محبت کرے، سہارا دے اور سمجھ سکے۔”

کیا آپ تیار ہیں؟

کیا آپ وعدہ کریں گے؟

کیا آپ اب وہ بیٹا، وہ بیٹی، وہ بیوی یا وہ شوہر بننا چاہتے ہیں جو خدا کی نظر میں قیمتی ہو؟

آئیے، آج یہ فیصلہ کریں

"اگر آپ وہ لمحہ نادانی یا ضد میں آ کر کھو چکے ہیں… اور اب آپ کے والدین اس دنیا میں نہیں رہے، تو جان لیں کہ وہ لمحات تو لوٹ کر نہیں آئیں گے، مگر خُدا کا رحم اور توبہ کا دروازہ اب بھی کھلا ہے۔

اپنی کوتاہیوں کا دل سے اقرار کریں، خُدا سے معافی مانگیں، کیونکہ خداوند یسوع مسیح کا قیمتی لہو ہمیں ہر گناہ سے پاک کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ ایسی سچی توبہ آپ کے دل کو سکون دے گی، اور خُدا کے ساتھ آپ کا رشتہ نئی تازگی پائے گا

آئیے خداوند کی پاک حضوری میں اپنے سروں کو جھکاتے ہیں اپنی آنکھوں کو بند کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں۔

اے خُداوند،

آج ہم اعتراف کرتے ہیں کہ ہم میں سے بہت سے

اپنے باپ کی قربانیوں، دعاؤں، اور خلوص کو نظرانداز کرتے رہے۔

ہم نے اُن کی سختی کو دشمنی سمجھا، اُن کی تربیت کو بوجھ جانا،

اور اُن کی خاموش محبت کو کبھی نہ پہچانا۔

مگر آج، اے خُدا، تو نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں۔

ہم تیری حضوری میں فریاد کرتے ہیں:

ہمیں معاف کر اے خُدا،

جہاں ہم نے نافرمان بیٹوں کی مانند زندگی گزاری…

جہاں ہم نے باپ کی دعا کے دروازے کو خود ہی بند کر دیا۔

اے آسمانی باپ،

ہم تُجھ سے التجا کرتے ہیں کہ تو ہمیں وہ حکمت دے

کہ ہم اپنے والدین کی قدر کریں،

اُن کی خدمت کریں، اور اُن کے دل سے نکلنے والی دعاؤں کے حقدار ٹھہریں۔

اے خُدا،

ہر اُس بیوی کو عقل و فہم دے جو انجانے میں اپنے خاندان کی برکتوں کے رستے میں رکاوٹ بن چکی ہے۔

اے رب، اُن کے دل کو نرم کر تاکہ وہ اپنے شوہر کی طاقت بنیں،

نہ کہ اُس کی برکتوں کو روکنے کا سبب۔

اے خُداوند یسوع،

تو جو باپوں کا باپ ہے،

تو جو کامل ہے،

ہماری زندگیوں میں وہ برکت واپس لے آ

جو شاید ہماری غلطیوں سے ہم سے چھِن گئی ہو۔

ہم مانگتے ہیں،

ہم ڈھونڈتے ہیں،

ہم دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں…

اور یقین رکھتے ہیں کہ تُو کھولے گا،

دے گا،

اور رہنمائی کرے گا۔

ہم یہ سب کچھ تیرے بیٹے،

ہمارے خُداوند اور نجات دہندہ

یسوع مسیح کے نام میں مانگتے ہیں۔

آمین۔