اپنے وقت، موقع کو پہچاننا اور چیزوں کی قدر کرنا

خُداوند یسوع مسیح کے پاک نام میں پاسٹر پرویز مسیح آپ کی خدمت میں سلام پیش کرتا ہوں اور خوش آمدید کہتا ہوں۔

کیا کبھی آپ کے ساتھ ایسا ہوا ہے کہ کوئی ایسی چیز جس کی آپ کو آنے والے وقت مٰیں ضرورت ہو اور وہ مناسب دام میں مل رہی ہو مگر گُنجائش ہونے کہ باوجود آپ نے کہہ کر نہ خریدی ہو کہ بعد میں خرید لونگا۔

لیکن جب آپ بعد میں اُسے لینے گئے ہوں تو یا تو وہ بِک گئی ہو یا پھر قیمت اِس قدر بڑھ گئی ہو کہ اب آپ اُسے خرید ہی نہیں سکتے۔

آپ نے اِس بات پر افسوس کیا ہو کہ کاش میں اُس وقت ہی خرید لیتا تو بہتر ہوتا۔

ہر انسان اپنی زندگی میں کئی ایسے "کاش” رکھتا ہے کیونکہ کوئی بھی انسان سو فیصد کامل نہیں ہوتا اور نہ ہی مستقبل کا پتا ہوتا ہے کہ انسان غلطی کرے ہی نہ۔

ہم سب سے کبھی نہ کبھی غلطی ہو جاتی ہے، کچھ مواقع چھوٹ جاتے ہیں، کچھ فیصلے مؤخر ہو جاتے ہیں۔

لیکن زندگی کے کچھ پہلو ایسے بھی ہوتے ہیں۔ جہاں اگر "کاش” لگ جائے… تو وہ نقصان صرف وقتی نہیں، بلکہ ہمیشہ کا ہو سکتا ہے۔

ایسے لمحے جہاں اگر ہم وقت کو نہ پہچانیں۔ تو صرف چیزیں نہیں ہی نہیں بلکہ رشتے، موقعے، اور حتیٰ کہ روحانی زندگی بھی پیچھے رہ سکتی ہے۔

خُدا کے کلام میں بھی ہمیں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر ہم وقت کو نہ پہچانیں، تو ہم اُس مقام پر نہیں پہنچ پاتے جہاں خُدا ہمیں لے جانا چاہتا ہے۔
جیسے عبرانیوں 5:12 میں لکھا ہے: ‘وقت کے خیال سے تو تمہیں اُستاد ہونا چاہیے تھا…’
یعنی وقت ملا تھا، موقع تھا، مگر ہم نے اُس کو استعمال نہ کیا — نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں وہی سبق دوبارہ سیکھنے پڑ رہے ہیں، جو ہم کب کے سیکھ چکے ہونے چاہییں تھے۔

کبھی تو ہمارے پاس شاید واپس لوٹنے کا موقع ہوتا ہے. لیکن اگر ہم وقت کو پہچان نہ سکیں تو کبھی کبھی وہ لوٹنے کا موقع بھی ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔

اور پھر… بس عمر بھر کا ایک ایسا پچھتاوا باقی رہ جاتا ہے، جسے یاد کر کے انسان ساری زندگی دل ہی دل میں تڑپتا رہتا ہے۔

آئیے کلام خدا میں سے حوالہ دیکھتے ہیں تاکہ اس بات کو مزید اچھی طرح سمجھ سکیں۔

متی رسول کی انجیل 25 باب میں ہیں دس کنوریوں کی ایک تمثیل ملتی ہے۔ ان کنوریوں میں سے پانچ کو عقلمند اور پانچ کو بے وقوف کہا گیا ہے۔

پانچ عقلمند کس بنیاد پر ہیں کیونکہ انہوں نے مشلوں کے ساتھ کپیوں میں اضافی تیل بھی لیا تھا۔ جب ان کے پاس تیاری کا موقع اور وقت تو انہوں نے غیر متوقع صورتحال کی مدنظر رکھتے ہوئے اپنے وقت اور موقعے کا درست استعمال کیا۔

لیکن پانچ بےوقوف کس وجہ سے ہیں کیونکہ انہوں نے تیاری میں کوتاہی برتی جبکہ ان کے پاس بھی برابر وقت اور موقع تھا۔

پھر ہم پڑھتے ہیں کہ دلہا نے دیر لگائی۔ مطلب کے عقلمند کنواریوں کو اضافی تل کپیوں میں لینے کا فائدہ ہوا وہ اسی اضافی تیل کی بنیاد پر دلہا کے ساتھ اندر جا پائیں۔

مگر بےوقوف کنواریاں باہر ہی رہ گئیں اپنی نامکمل تیاری کی واجہ سے۔ بعد میں یہ اضافی تیل لے کر آئیں مگر اب وہ اپنا موقع کھو چکیں تھیں۔ اب کوئی نہیں جو ان کے لئے دروازہ کھول دے تاکہ وہ بھی اندر آجائیں اور جشن میں شریک ہوجائیں۔

ایک عام مثال دیکھیں تو جب کبھی امتحان ہونے ہوتے ہیں تو بہت پہلے سے ہی ہمارے علم میں ہوتا ہے کہ فلاں تاریخ پر امتحان ہوگا۔ بہت سے لوگ تو ملنے والے وقت کو استعمال کرتے ہوئے تیاری کرتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں۔

مگر کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ قیمتی وقت جو تیاری کا ہوتا ہے اسے ضائع کردیتے ہیں۔ عام رویہ یہ ہوتا ہے کہ ابھی تو بہت وقت ہے۔ کرلیں گے تیاری۔ اور ایسا کرتے کرتے آخری دن آجاتا ہے اور پھر پریشانی ہوتی ہے اور نتیجتاً ناکامی کی صورت میں خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔

پھر ایک اور رویہ بڑا عام ہے۔ کبھی کبھی ہمارے پاس کوئی ایسی چیز ہوتی ہے جو بڑی قیمتی ہوتی ہے مگر ہم نادانی میں اس کی بے قدری کرتے ہیں۔

ایسا اکثر ان چیزوں کے ساتھ ہوتا ہے جو ہمیں بغیر خود کی محنت کے مل جاتیں ہیں۔ مثلا والدین کی طرف سے ملنے والی چیزیں۔ ہم اپنی بے قدری کی وجہ سے ان چیزوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

ہمارے پاس پیدائش کی کتاب میں عیسو کی مثال ہے جس نے ایک وقت کے کھانے کی خاطر اپنے پہلوٹھے ہونے کے حق کو ناچیز جانا۔

پیدائش 25 باب کی 32 آیت میں لکھا ہے کہ عیسو نے کہا کہ

عیسوؔ نے کہا دیکھ مَیں تو مرا جاتا ہُوں پہلوٹھے کا حق میرے کِس کام آئے گا؟

اس نے یعقوب کو اپنے پہلوٹھے ہونے کا حق بیچ دیا۔ یہی حق بعد میں یعقوب کے کتنے کام آیا یہ ہم سب جانتے ہیں۔ ایک وقت کے کھانے کے عوض بیچا جانے والا حق کس قدر قیمتی تھا اس بات کا احساس عیسو کو بعد میں ہوا۔

عبرانیوں 12 باب کی 17 آیت میں لکھا ہے کہ

اِس کے بعد جب اُس نے برکت کا وارِث ہونا چاہا تو منظُور نہ ہُؤا۔ چُنانچہ اُس کو نِیّت کی تبدِیلی کا مَوقع نہ مِلا گو اُس نے آنسُو بہا بہا کر اُس کی بڑی تلاش کی۔

ایک محاورہ ہے کہ ” اب پچھتائے کیا ہوا جب چڑیاں چھگ گئی کھیت”

یہی بات ایک مشہور محاورے میں بھی کہی گئی ہے:”اب پچھتائے کیا ہوا، جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت!”یعنی جب موقع نکل جائے،

تو چاہے انسان جتنا بھی افسوس کرے،وہ سب بے فائدہ ہو جاتا ہے۔یہی عیسو کے ساتھ ہوا —برکت کا موقع، حق، حیثیت۔

سب اُس کے ہاتھ سے نکل گیا۔اور جب اُسے احساس ہوا،تو صرف آنسو باقی تھے،مگر موقع واپس نہ آیا۔

میرے عزیز بھائیو اور بہنو

خداوند یسوع مسیح نے اعظیم قربانی دے کر ہمارے لئے نجات کا بندوبست کیا ہے۔ اس نے صلیب کا دکھ سہا۔ بھاری صلیب اٹھائی، اس کے منہ پر تھوکا گیا، اسے کوڑے مارے گئے اور یہ سب کچھ ہماری نجات کے لئے کیا گیا۔

اس کے بدلے وہ ہمیں ایک آسان سا کام کرنے کو کہتا ہے کہ توبہ کریں، خداوند یسوع مسیح کے نام میں بپتِسمہ لیں اور روح القُدس حاصل کرکے اس نجات کے بڑے انظام کا حصّہ بن جائیں۔

بہت سے لوگ اس نجات کی پکار کو سن کر بھی کان پھر لیتے ہیں۔ خدا کی طرف سے دی گئی آسانی کو حقیر اور ناچیز جانتے ہیں۔ بار بار خدا کے خادم صدا لگاتے ہیں کہ توبہ کرلو، بپتسمہ لے لو، روح سے معمور ہوجاو مگر لوگ کانوں کو ایسے جیسے بند کئے ہوئے ہیں۔

خدا نے اپنے بیٹے میں ہوکر اپنے تک رسائی آسان بنادی ہے۔ لیکن لوگ غفلت کا شکار ہیں اور اس اہم موقعے کو مسلسل ضائع کر رہے ہیں۔