دوسروں کا ناجائز فائدہ اُٹھانا

"خُداوند یسوع مسیح کے پُر جلال نام میں آپ سب کو سلام پیش کرتے ہیں اور دل کی گہرائی سے میں خوش آمدید کہتے ہیں

آج ہم ایک ایسے روزمرہ کے معاملے پر غور کریں گے جو کبھی نہ کبھی ہم سب کے ساتھ پیش آتا ہے، لیکن افسوس کہ اکثر لوگ اِس کے پیچھے چھپی ہوئی اخلاقی اور روحانی تاریکی کو نہ پہچانتے ہیں اور نہ ہی اِس پر غور کرتے ہیں۔

ایک بار ایک بھائی نے کسی خادم سے کہا: ‘پاسٹر صاحب، میں ایک لیپ ٹاپ لینا چاہتا ہوں کیونکہ مجھے اس کی ضرورت ہے۔ اگر مناسب قیمت میں اچھا لیپ ٹاپ مل جائے تو اچھا ہوگا یا آپ کے علم میں کوئی ایسا شخص ہو جو کسی مجبوری کے تحت اپنا اچھا لیپ ٹاپ بیچ رہا ہو، تو مجھے بھی کچھ آسانی ہو جائے گی۔

بظاہر یہ ایک معمولی اور سادہ سی بات لگتی ہے — آخر اگر کوئی کچھ بیچنا چاہتا ہے اور دوسرا خریدنا، تو اِس میں آخر حرج ہی کیا ہے؟ خرید و فروخت تو دنیا میں ہمیشہ سے چلتی آئی ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ سوچ عام ہے: ‘اگر میں نہیں خریدوں گا تو کوئی اور خرید لے گا۔ جب کسی اور نے ویسے بھی فائدہ اُٹھانا ہے، تو پھر کیوں نہ میں ہی فائدہ اُٹھا لوں؟ ویسے بھی، مجھے اُس چیز کی ضرورت ہے۔

کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص مجبوری کے تحت اپنی قیمتی چیز پہلے ہی کم قیمت پر بیچ رہا ہوتا ہے، لیکن لوگ یہ جانتے ہوئے بھی اُس سے اور بھی کم کروانے کی ضد کرتے ہیں، تاکہ اُنہیں زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو جائے۔ دنیاوی اعتبارسے شاید یہ ایک کامیاب سودے بازی سمجھی جائے، کیونکہ پیسے بچانا ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے، لیکن کسی مجبور انسان کے ساتھ ایسا برتاؤ کرنا کیا واقعی درست ہے؟

بحیثیتِ ایماندار، ہمارا نقطۂ نظر دُنیاوی سوچ سے مختلف ہونا چاہیے۔ آج ہم اِسی معاملے کو خُدا کے کلام کی روشنی میں پرکھنے کی کوشش کریں گے۔

"جیسا کہ رومیوں 12 باب، آیت 2 میں لکھا ہے:

‘اور اِس جہان کے ہم شکل نہ بنو، بلکہ عقل نئی ہو جانے سے اپنی صورت بدلتے جاؤ تاکہ خُدا کی نیک اور پسندیدہ اور کامل مرضی تجربہ سے معلوم کرتے رہو۔’

پس ہمارا بنیادی سوال یہ ہے: کیا ایک ایماندار کو کسی کی مجبوری کا فائدہ اُٹھانا چاہیے؟

لیکن اگر ہم ذرا گہرائی میں جائیں، تو یہ مسئلہ صرف مجبوری تک محدود نہیں رہتا۔ لوگ بڑی چالاکی سے دوسروں کی شرافت، سادگی، لاعلمی، بلکہ خلوص اور قربانی جیسے جذبات کو بھی اپنے فائدے کے لیے استعمال کر لیتے ہیں۔

لہٰذا جب ہم اِس سوال کو خُدا کے کلام کے آئینے میں دیکھتے ہیں تو اصل سوال یوں بنتا ہے: کیا ایک راست باز، خُدا ترس اور ایماندار مسیحی ہوتے ہوئے، ہمیں کسی کی مجبوری، نیکی، سادگی یا جذبے کا ناجائز فائدہ اُٹھانا چاہیے؟ یہ ایک ایسی چھپی ہوئی برائی ہے جو صرف دُنیا تک محدود نہیں، بلکہ کبھی کبھی ہمارے گھروں، کلیسیاؤں اور قریبی رشتوں میں بھی داخل ہو جاتی ہے۔

برائی، برائی تب تک رہتی ہے جب تک معاشرے میں اُس کے برے ہونے کا احساس زندہ ہو۔ لیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ برائی اتنی عام ہو جاتی ہے کہ اُس کے برے ہونے کا شعور ہی ختم ہو جاتا ہے۔ یہ احساس ہی تو ہے جو ہمیں ہمارے برے عمل پر افسردہ کرتا ہے اور ہمیں توبہ کی طرف لے جاتا ہے

خُدا کے خادم، اسی احساس کو جگانے کی کوشش میں رہتے ہیں تاکہ لوگوں کی زندگیاں خُدا کے کلام کے مطابق ڈھل سکیں۔

آئیے، اِس پیچیدہ مسئلے کو سمجھنے کے لیے خداوند یسوع مسیح کی ایک ایسی تمثیل کا سہارا لیں، جو اپنے اندر علم، حکمت اور روحانی گہرائی کا خزانہ رکھتی ہے۔ خداوند یسوع کی تمثیلوں کی یہی خوبصورتی ہے کہ آپ انہیں جتنی بار بھی پڑھیں، ہر بار دِل کو ایک نیا، زندہ اور سبق آموز پیغام ملتا ہے۔

ہم متی رسول کی معرفت لکھی گئی انجیل کے 20ویں باب کی پہلی آیت سے پڑھیں گے۔

کلام فرماتا ہے:

"کیونکہ آسمان کی بادشاہی اُس گھر کے مالِک کی مانِند ہے جو سویرے نِکلا تاکہ اپنے تاکِستان میں مزدور لگائے۔”

یہاں خداوند یسوع ایک ایسے مالک کی مثال دے رہے ہیں جو اپنے باغ کے لیے مزدوروں کی تلاش میں ہے۔ وہ صبح سویرے ہی نکلتا ہے، ٹھیک اُسی وقت جب مزدور بھی کام کی تلاش میں نکلتے ہیں۔

اگلی آیت میں لکھا ہے:

"اور اُس نے مزدوروں سے ایک دِینار روز ٹھہرا کر اُنہیں اپنے تاکِستان میں بھیج دِیا۔”

یہ ایک عام اصول ہے کہ کام سے پہلے مزدوری طے کر لی جائے تاکہ بعد میں کوئی اختلاف نہ ہو۔ اِس مالک نے بھی ایک دینار روزانہ پر بات طے کی اور مزدوروں کو کام پر بھیج دیا۔

پھر اگلی آیت میں لکھا ہے کہ

"پِھر پہر دِن چڑھے کے قرِیب نِکل کر اُس نے اَوروں کو بازار میں بیکار کھڑے دیکھا۔ اور اُن سے کہا تُم بھی تاکِستان میں چلے جاؤ۔ جو واجِب ہے تُم کو دُوں گا۔ پس وہ چلے گئے۔”

یہاں مالک کا کردار دیکھیے… وہ شاید خاص طور پر مزید مزدور ڈھونڈنے نہیں نکلا تھا، لیکن جب اُس کی نظر بیکار کھڑے لوگوں پر پڑی، تو اُس نے اُنہیں بھی کام کی پیشکش کی۔ مگر اِس بار اُس نے رقم طے نہیں کی، صرف اتنا کہا، "جو واجب ہوگا، وہ دوں گا۔”

یہ مزدور شاید اتنے مجبور تھے کہ اُنہوں نے سوچا، "سارا دن بیکار رہنے سے کچھ کما لینا ہی بہتر ہے۔” وہ مالک کے وعدے پر بھروسہ کر کے چلے گئے۔

کلام ہمیں بتاتا ہے کہ مالک نے دوپہر اور تیسرے پہر بھی ایسا ہی کیا، اور پھر دن ختم ہونے سے صرف ایک گھنٹہ پہلے بھی اُسے کچھ لوگ بیکار کھڑے ملے۔ اُس نے اُن سے پوچھا، "تم سارا دن یہاں کیوں کھڑے رہے؟” اُنہوں نے جواب دیا، "کیونکہ کسی نے ہمیں کام پر نہیں لگایا۔”

مالک نے اُن سے بھی کہا، "تم بھی تاکِستان میں چلے جاؤ۔”

یہ آخری مزدور تو سب سے زیادہ بےبس اور مجبور دکھائی دیتے ہیں—جو شام ہونے تک کام کی اُمید لیے کھڑے رہے۔ شاید اُن کی آنکھوں کے سامنے اُن کے بچوں کی بھوک، گھر کی ضروریات، اور خاندان کی فکر ہو۔ شاید اُن کے معصوم بچے اُن کا راستہ دیکھ رہے ہوں، کسی نوالے کی اُمید لیے۔

اب یہاں ایک اہم سوال جنم لیتا ہے: آخر مالک کیا کرنا چاہتا ہے؟ کیونکہ اُس نے اِن بعد میں آئے ہوئے مزدوروں کے ساتھ کوئی اجرت طے نہیں کی تھی—تو اُس کے پاس یہ سنہری موقع تھا کہ وہ اُن کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتا، اُنہیں کم پیسے دے کر فارغ کر دیتا، اور کوئی اُنگلی بھی نہ اُٹھاتا۔

مگر آئیے دیکھتے ہیں کہ حقیقت میں کیا ہوا۔ شام کو مالک نے اپنے کارندے سے کہا:

"مزدُوروں کو بُلا اور پچھلوں سے لے کر پہلوں تک اُن کی مزدُوری دے دے۔”

اب وہ لمحہ آ چکا ہے جو ہر مزدور کے لیے نہایت اہم اور خوشی بھرا ہوتا ہے — وہ لمحہ جس کے لیے اُس نے دن بھر محنت کی ہوتی ہے، کیونکہ مزدور کا دل اُس کی مزدوری سے لگا رہتا ہے۔

جیسا کہ استثنا 24 باب کی 15 آیت میں لکھا ہے

‘تُو اُسی دِن، اِس سے پہلے کہ آفتاب غُروب ہو، اُس کی مزدُوری اُسے دینا کیونکہ وہ غرِیب ہے اور اُس کا دِل مزدُوری میں لگا رہتا ہے۔ تا نہ ہو کہ وہ خُداوند سے تیرے خِلاف فریاد کرے، اور یہ تیرے حق میں گُناہ ٹھہرے۔

جو مزدور صبح سویرے کام پر لگے تھے، اُنہیں شاید اس وقت تک کوئی پریشانی نہ ہو — کیونکہ اُن کے ساتھ تو ایک دینار کی مزدوری طے ہو چکی تھی۔

لیکن بعد میں آنے والے مزدور، جن کے ساتھ کوئی رقم طے نہیں ہوئی بلکہ صرف اتنا کہا گیا کہ ‘جو واجب ہوگا دوں گا’ — وہ شاید پریشانی اور سوچ میں ہوں: کیا ملنے والی رقم اتنی ہوگی کہ ہماری ضروریات پوری ہو جائیں؟ کیا ہم اپنے بچوں کے لیے کچھ لے جا سکیں گے؟

لکھا ہے کہ

"اور جب وہ مزدور آئے جنہیں صرف ایک گھنٹہ پہلے کام پر لگایا گیا تھا، "تو اُن کو ایک ایک دِینار مِلا۔”

یہاں مالک کا اصل کردار نمایاں ہوتا ہے — وہ ایک رحم دل، فیاض اور راست باز شخص ہے۔ اُس نے اُن کی مجبوری کا فائدہ نہیں اٹھایا، بلکہ اُن کی ضرورت کو محسوس کیا۔ اُسے معلوم تھا کہ شاید تھوڑے سے پیسوں سے اُن کا گھر نہ چل سکے، اُن کے بچے بھوکے رہ جائیں۔

حالانکہ اُس کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ کم دے کر اُنہیں فارغ کر دیتا، مگر اُس نے انصاف کے بجائے صرف قانون کا سہارا نہیں لیا، بلکہ رحم اور احسان کو ترجیح دی۔

یہ ہمارے لیے ایک زبردست مثال ہے کہ ایک خُدا ترس، دیانت دار اور رحم دل شخص کا کردار کیسا ہونا چاہیے۔

ایک ہوتا ہے عدل و انصاف، اور ایک ہوتا ہے عدل و احسان۔ عدل و انصاف اپنی جگہ بالکل درست ہے — اس پر کوئی سوال نہیں اُٹھایا جا سکتا کیونکہ یہ حق کے مطابق ہوتا ہے۔ مگر عدل و احسان ایک بلند تر درجہ رکھتا ہے، کیونکہ اس میں صرف حق ادا نہیں کیا جاتا بلکہ دل میں رحم، نرمی، اور دوسروں کے دُکھ کو محسوس کرتے ہوئے اُن پر مہربانی کی جاتی ہے۔

جیسا کہ میکاہ 6 باب کی 8 آیت میں لکھا ہے:

"اَے اِنسان! اُس نے تُجھ پر نیکی ظاہِر کر دی ہے۔ خُداوند تُجھ سے اِس کے سِوا کیا چاہتا ہے کہ تُو اِنصاف کرے، رحم دِلی کو عزِیز رکھّے اور اپنے خُدا کے حضُور فروتنی سے چلے؟”

اسی طرح زبور 41 کی 1 آیت میں مرقوم ہے:

"مُبارک ہے وہ جو غرِیب کا خیال رکھتا ہے۔ خُداوند مُصِیبت کے دِن اُسے چُھڑائے گا۔”

اور یاد رکھیں، کلامِ خُدا کا یہ اصول اٹل ہے:

"جس پیمانے سے تُم ناپتے ہو، اُسی پیمانے سے تمہارے لئے ناپا جائے گا۔”

(متی 7:2)

آج اگر ہم کسی کی مجبوری کا فائدہ اُٹھائیں گے، تو کل ہو سکتا ہے کہ ہمارے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کیا جائے۔ پس، ہمیں نہ صرف عدل پر بلکہ احسان پر بھی چلنے کی ضرورت ہے۔

اب آئیے، اس تمثیل کا دوسرا رُخ دیکھتے ہیں — اُن مزدوروں کا جو سب سے پہلے بلائے گئے تھے اور جن سے شروع میں ہی مزدوری طے ہو چکی تھی۔

ہم نے آغاز میں ذکر کیا تھا کہ انسان صرف مجبوری کا ہی نہیں، بلکہ اکثر کسی کی سادگی، شرافت، نیکی اور خاموشی کا بھی فائدہ اٹھاتا ہے۔ یہاں ہمیں بھی کچھ ایسا ہی منظر دکھائی دیتا ہے۔

کلامِ مقدس میں لکھا ہے

"جب پہلے مزدُور آئے تو اُنہوں نے یہ سمجھا کہ ہم کو زِیادہ مِلے گا۔”

دیکھیے، اُن کے دل میں لالچ اور حسد نے جگہ بنائی، حالانکہ اُن کے ساتھ شروع ہی سے ایک دینار طے ہو چکا تھا۔ مگر وہ مالک کی نیکی کو دیکھ کر زیادہ کی خود ساختہ اُمید باندھ بیٹھے۔

اور جب اُنہیں بھی وہی ایک دینار مِلا، تو شکایت کرنے لگے:

"اِن پچھلوں نے صرف ایک گھنٹہ کام کیا اور تُو نے اِن کو ہمارے برابر کر دیا، جنہوں نے دِن بھر کا بوجھ اُٹھایا اور سخت دُھوپ سہی!”

غور کیجئے! اُن کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہوئی تھی۔ اُنہیں وہی مِلا جو طے تھا۔ مگر وہ مالک کی مہربانی کو بنیاد بنا کر ناجائز فائدہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔

 وہ ایسی بات کو مسئلہ بنا رہے تھے، جو سرے سے مسئلہ ہی نہ تھی — صرف اس لئے کہ کچھ اضافی حاصل کر سکیں۔

یہی تو وہ رویہ ہے جو ہم اکثر دیکھتے ہیں: کسی کی سخاوت کو کمزوری سمجھنا، اور اس کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرنا۔

مگر مالک کا جواب — کیا ہی خوبصورت، حکمت اور انصاف سے بھرپور تھا۔

 "اُس نے جواب دے کر اُن میں سے ایک سے کہا:

‘مِیاں، میں تیرے ساتھ بے اِنصافی نہیں کرتا۔ کیا تیرا مُجھ سے ایک دِینار طے نہیں ہوا تھا؟ جو تیرا ہے اُٹھا لے اور چلا جا۔ میری مرضی ہے کہ جتنا تجھے دیا، اِس پِچھلے کو بھی اتنا ہی دُوں۔ کیا مجھے یہ اختیار نہیں کہ اپنے مال سے جو چاہوں، سو کروں؟ یا تُو اِس لیے کہ میں نیک ہوں، بُری نظر سے دیکھتا ہے؟'”

کیا خوب سوال ہے!

"کیا تُو اس لیے کہ میں نیک ہوں، بُری نظر سے دیکھتا ہے؟”

یہ سوال آج بھی ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے 

کیا ہم دوسروں کی نیکی کو حسد، تنقید، یا بدگمانی کی نظر سے دیکھتے ہیں؟

کیا ہم دوسروں کی مہربانی کو کمزوری سمجھتے ہیں؟

کیا ہم رحم کو موقع جان کر فائدہ اُٹھاتے ہیں؟

یہ تمثیل ہمیں دو خطرناک رویوں سے خبردار کرتی ہے:

کسی کی مجبوری کا فائدہ اٹھانا

کسی کی نیکی کا فائدہ اُٹھانا

اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ دونوں رویے آج بھی ہماری روزمرہ زندگی اور معاشرے میں نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر: معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ "ویلفیئر” یا "فلاحی” نام پر ایسے ادارے کھول لیتے ہیں، جن کا اصل مقصد خدمت نہیں بلکہ مفاد ہوتا ہے۔

وہ دو چالاکیاں ایک ساتھ کرتے ہیں: ایک طرف کسی غریب، یتیم، یا بیمار کی تصویر دکھا کر اُس کی مجبوری کو بیچتے ہیں، اور دوسری طرف رحم دل لوگوں کے خلوص، ہمدردی، اور عطیات کو نوٹوں میں تبدیل کر لیتے ہیں۔

یعنی ایک طرف مجبوری کا استحصال، اور دوسری طرف نیکی کا استحصال۔

یقیناً، سب ایسے نہیں ہوتے! بہت سے لوگ خلوصِ نیت سے خُدا کے لیے عظیم خدمت کر رہے ہیں، جن کی قربانیاں اور نیک نیتی قابلِ تحسین ہے۔ خیرات دینا — ایک ایماندار مسیحی کی راستبازی کے کاموں میں سرفہرست ہے۔

یہی وہ عمل ہے جسے یسوع مسیح نے خود سراہا، اور متی 6 باب میں سب سے پہلے خیرات کا ذکر فرمایا، اُس کے بعد روزہ اور پھر دعا۔ لیکن جب یہی مبارک عمل — جس کا مقصد کسی کی مدد، کسی کا بوجھ ہلکا کرنا، کسی کی دُعا کا جواب بننا ہوتا ہے۔ اگر یہی عمل مفاد، شہرت، یا فریب کے پردے میں چھپ جائے. …تو یہ خیرات نہیں رہتی، بلکہ ایک "بیانک روحانی جرم” بن جاتی ہے۔

کلام کہتا ہے

"خبردار! اپنی راستبازی کو آدمیوں کے سامنے ظاہر نہ کرو تاکہ وہ تمہیں دیکھیں، ورنہ تمہارے آسمانی باپ کے ہاں تمہارا اجر نہیں۔”

خیرات کو دکھاوے، دھوکے یا لالچ کا ذریعہ بنانا اُس پاک عمل کی توہین ہے، جسے خدا نے برکت کا وسیلہ بنایا ہے۔

لیکن یہ تمثیل ہمیں سکھاتی ہے کہ

نہ صرف ہم خود ان دو رویوں سے بچیں، بلکہ جہاں بھی ہمیں ایسا طرزِ عمل نظر آئے، ہم اُسے کلام کی روشنی میں پرکھیں۔ کیونکہ خدا انصاف، رحم، اور سچائی سے بھرپور ہے، اور چاہتا ہے کہ اُس کے لوگ بھی اُسی کے معیار پر چلیں۔

آئیے کلامِ مقدس سے ایک اور واقعہ دیکھتے ہیں، جہاں ایک شخص نے بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ دوسرے کی مجبوری اور اُس کے جذبات کا استعمال کیا۔

پیدائش کی کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ جب عیسو کا غصہ اپنے بھائی یعقوب کے لیے انتہا کو پہنچ گیا، تو اُس کی والدہ ربقہ نے یعقوب کو اُس کے ماموں لابن کے پاس بھیج دیا تاکہ اُس کی جان بچ سکے۔

پیدائش 29 باب میں، جب یعقوب لابن کے پاس پہنچا اور اپنی ساری آپ بیتی سنائی، تو لابن ایک چالاک شخص تھا۔ وہ فوراً سمجھ گیا کہ یعقوب اپنے بھائی کے ڈر سے گھر واپس نہیں جا سکتا، اور اب وہ ہر طرح سے اُس کے رحم و کرم پر ہے۔

تو یہاں صورتِ حال کیا تھی؟ ایک طرف تو یعقوب اپنے بھائی کے خوف سے واپس نہیں جا سکتا تھا، اور دوسری طرف اُس کے باپ اضحاق نے اُسے تاکید کی تھی کہ اپنے ماموں کی بیٹی سے ہی شادی کرنی ہے۔ لابن یہ سب کچھ جانتا تھا۔

جب یعقوب کو رہتے ہوئے ایک مہینہ ہو گیا، تو لابن نے بڑی ہمدردی جتاتے ہوئے اُس سے بات کی۔

پیدائش 29 باب کی 15ویں آیت میں لکھا ہے:

"تب لابن نے یعقُوب سے کہا، چُونکہ تُو میرا رِشتہ دار ہے تو کیا اِس لِئے لازِم ہے کہ تُو میری خِدمت مُفت کرے؟ سو مُجھے بتا کہ تیری اُجرت کیا ہو گی؟”

بظاہر یہ باتیں کتنی ہمدردانہ لگتی ہیں! جیسے لابن کو یعقوب کا کتنا احساس ہے۔ لیکن لابن کے دِل میں کیا تھا، یہ اُس وقت کوئی نہیں جانتا تھا۔ لابن ایک شاطر انسان تھا۔

 اُس نے ایک مہینے میں ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ یعقوب نہ صرف ایک محنتی نوجوان ہے، بلکہ اُس کے باپ کی دعا کے سبب ایک بابرکت انسان بھی ہے۔

اور وہ یہ بھی جان چکا تھا کہ یعقوب اُس کی چھوٹی بیٹی راخل سے محبت کرنے لگا ہے۔

لابن نے یعقوب کی شخصیت اور اُس کی مجبوریوں کا پورا جائزہ لے لیا تھا:

پہلا، وہ مجبور ہے اور گھر واپس نہیں جا سکتا۔

دوسرا، وہ راخل کی محبت میں گرفتار ہے، یعنی اُس کے جذبات بھی شامل ہیں۔

تیسرا، وہ ایک نیک اور بابرکت انسان ہے، جس کی محنت سے لابن کو فائدہ ہوگا۔

اور چوتھا، وہ سیدھا اور معصوم ہے۔

جب لابن نے اجرت کی بات کی، تو یعقوب نے اپنی سادگی میں کوئی مال و دولت نہیں مانگا، بلکہ پیدائش 29 باب کی 18ویں آیت کے مطابق اُس نے کہا:

"اور یعقُوبؔ راخِلؔ پر فریفتہ تھا۔ سو اُس نے کہا کہ تیری چھوٹی بیٹی راخِلؔ کی خاطِر مَیں سات برس تیری خِدمت کر دُوں گا۔”

یعقوب نے محبت میں سات سال کی خدمت کو معمولی سمجھا، لیکن جب سات برس پورے ہوئے، تو لابن نے وہ کیا جو ایک شاطر اور لالچی انسان کرتا ہے۔ اُس نے یعقوب کے ساتھ صریحاً دھوکا کیا اور راخل کے بجائے اپنی بڑی بیٹی لیاہ اُس سے بیاہ دی۔

یوں لابن نے یعقوب کی مجبوری، اُس کے جذبات اور اُس کی سادگی کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور راخل کے لیے مزید سات سال کی خدمت کا مطالبہ کر دیا۔ یعقوب کو کل چودہ سال اپنے ماموں کی خدمت کرنی پڑی۔

لابن کے اِس دھوکے کا اثر صرف یعقوب پر نہیں پڑا، بلکہ اُس کی اپنی بیٹیوں کی زندگیاں بھی بے سکون ہو گئیں۔ وہ یعقوب کی محبت کے لیے آپس میں لڑتی جھگڑتی رہیں۔

آخرکار ایک وقت آیا کہ لابن کی بیٹیاں بھی جان گئیں کہ اُن کے باپ نے اپنے فائدے کے لیے اُنہیں بھی استعمال کیا ہے۔

پیدائش 31 باب کی 14ویں آیت میں وہ کہتی ہیں:

"تب راخِلؔ اور لیاہؔ نے اُسے جواب دِیا کیا اب بھی ہمارے باپ کے گھر میں کُچھ ہمارا بخرہ یا مِیراث ہے؟ کیا وہ ہم کو اجنبی کے برابر نہیں سمجھتا؟ کیونکہ اُس نے ہم کو بھی بیچ ڈالا اور ہمارے رُوپَے بھی کھا بَیٹھا۔”

بالآخر، یعقوب کو اپنا سب کچھ لے کر وہاں سے بھاگنا پڑا۔

میرے عزیز بہن بھائیو، ہمارے سامنے دو کردار ہیں: ایک طرف تاکستان کا وہ رحم دل مالک، جس نے مجبور مزدوروں کی ضرورت کو سمجھا اور اُن کا فائدہ نہیں اٹھایا۔

اور دوسری طرف شاطر لابن، جس نے نہ صرف یعقوب کی مجبوری اور جذبات کا استحصال کیا، بلکہ اپنی معصوم بیٹیوں کو بھی اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔

بحیثیتِ ایماندار مسیحی، یہ ہمارے لیے ایک گہرا سبق ہے کہ ہمیں کبھی بھی کسی کی مجبوری، نیکی، لاعلمی، معصومیت، سادگی، خلوص یا جذبات کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔

اگر دوسرے آپ کو ایسا کرتے دکھائی دیں، تب بھی آپ نے خود کو اِس گناہ سے پاک رکھنا ہے۔ مسیحیت صرف باتوں کا دین نہیں، بلکہ عمل اور کردار کا نام ہے، جس میں ہم خدا کی مرضی کو پورا کرتے ہیں۔

اگر آپ اپنے اردگرد دیکھیں، تو آپ کو ایسی درجنوں مثالیں مل جائیں گی، لیکن ہم اپنی کوشش سے ایک مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔

عزیز بہن بھائیو، آج کے کلام سے ہمیں ایک اہم سبق ملتا ہے ایک مسیحی ایماندار کبھی بھی کسی کی مجبوری، بے بسی، سادگی، جذبات یا نیکی کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھاتا۔ چاہے دُنیا اسے ‘سمارٹ ڈیل’ سمجھے، ہمارا معیار خُدا کا کلام ہے۔

آئیں، آج سے ہی عہد کریں کہ اپنے روزمرہ کے لین دین، کاروبار اور تعلقات میں ہم خُدا کے راستباز معیار پر چلیں گے۔ اگر ہم دیکھیں کہ کوئی مجبور ہے، تو استحصال کرنے کے بجائے، اگر ممکن ہو تو اس کی مدد کرنے کی کوشش کریں گے

آؤ، آج ہم سچے دل سے خُداوند کے حضور جھکیں اور دعا مانگیں:

"اے آسمانی باپ!

ہم تیرے شکرگزار ہیں کہ تُو ایک رحم دل، عادل اور محبت کرنے والا خُدا ہے۔

ہم تجھ سے آج اِلتجا کرتے ہیں:

ہمیں ایسا دل عطا کر جو نہ صرف تیرے کلام پر چلنے والا ہو بلکہ

ایسا نرم، حساس اور بیدار دل ہو جو دوسروں کی دُکھ، درد، مجبوری اور خاموش فریاد کو محسوس کر سکے۔

اے خُداوند!

ہمیں اس دُنیا کی خودغرض سوچ سے الگ کر دے۔

ہمیں ایسی روحانی آنکھیں دے جو صرف فائدہ نہ دیکھیں،

بلکہ تیرے رحم، انصاف اور سچائی کو ہر حالت میں مقدم رکھیں۔

اگر کبھی ہمارے دل میں یہ خیال آئے کہ ہم کسی کی کمزوری، سادگی، یا مجبوری سے فائدہ اُٹھائیں،

تو تُو ہمیں روک لے، ہمیں جگا دے، ہمیں ٹوکے…

تاکہ ہم وہ نہ کریں جو تجھے ناگوار ہو۔

اے ربِ قدوس!

ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے اندر تیرا عکس نظر آئے —

ہماری باتوں میں، ہمارے رویّے میں، ہمارے لین دین میں، ہماری سوچ میں،

تیرا انصاف، تیرا رحم، اور تیری محبت ظاہر ہو۔

ہم چاہتے ہیں کہ جیسے تو اپنے بیٹے یسوع مسیح میں ہو کر زمین پر آیا اور اس جہاں کے بوجھ اٹھائے

ہم بھی ویسے ہی بنیں —

بوجھ اُٹھانے والے، سہارا دینے والے، اور انصاف بانٹنے والے۔

ہم یہ سب کچھ مانگتے ہیں خُداوند یسوع مسیح کے پاک، زبردست اور جلالی نام میں۔

آمین